بس نظام ہی پٹڑی سے اتر جاتا ہے


انتخابات کے دو دن بعد حکمران جماعت کے انتہائی اہم افراد اجلاس میں شریک تھے۔ سب خوش تھے کیونکہ اکیلے ان کی پارٹی نے نو پارٹیوں کو شکست دی تھی۔ وہ سب مسکراتے چہروں کے ساتھ پی ایم ہاؤس میں موجود بھٹو کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب وہ کچھ بول کر خاموشی توڑ دیں۔ کچھ ہی لمحوں بعد بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوکر خاموشی توڑ ہی دی ’ ”حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہوگی“؟

حفیظ پیرزادہ نے برجستہ جواب دیا ”سر تیس سے چالیس تک۔

بھٹو نے یہ سنا تو وہاں موجود تمام افراد سے پوچھا۔ ”کیا پی این اے والوں سے بات نہیں ہوسکتی کہ وہ ان تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کردیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے؟

اس کہانی کا ذکر بھٹو مرحوم کے دست راست اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ”اور لائن کٹ گئی“ میں کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ یہ سن کر میرے چودہ طبق روش ہوگئے کیونکہ میں پورے الیکشن کمپین کے دوران اس بات سے بے خبر رہا کہ بھٹو صاحب نے دھاندلی کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔

یہ وہ دور تھا جب 1977 ء کے انتخابات ہوچکے تھے جس میں پیپلز پارٹی جیت چکی تھی اور نو پارٹیوں پر مشتمل اتحاد (پی این اے ) انتخابات کو دھاندلی ذدہ قرار دے کر سڑکوں پر احتجاج میں مصروف تھا۔ ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا تھا۔ تاریخ کے گئے دنوں کا حساب بدقسمتی سے نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ اُس وقت بھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سقوط کا سامنا کیا ہے جو آج تک ہماری تاریخ پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔

اقتدار کی بھوک اور مفادات کی پیاس عُروج پر تھی، ”بڑے دماغ“ والوں کے ذہن ماؤف ہوچکے تھے اور یہی وجہ تھی کہ تنائج سے بے خبرسب نے محلاتی سازشوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

مولانا کوثر نیازی جوکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رکن تھے نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”اور لائن کٹ گئی“ میں ان تلخ واقعات کا تٖفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”پی این اے کے اس احتجاجی تحریک کی وجہ سے تقریباً پچیس کروڑ کا نقصان ہوچکا تھا۔

ان حالات میں ستم بالائے ستم ملک میں مہنگائی کا وہ طوفان تھا جس کی وجہ سے عوام کی زندگی دن بہ دن اجیرن بنتی جارہی تھی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں اور ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی تھیں لیکن ان کی زندگیوں سے محلاتی سازشوں میں مصروف سیاستدانوں کو کوئی سروکار نہیں تھا۔ پی این اے اور بھٹو کے درمیان مذاکرات کی کوشش بھی ہوئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حالات کو ٹھیک کرنے کی خاطر سیاستدانوں ہی نے جرنیلوں کو سیاست میں شامل کرنا شروع کیاجس کی وجہ سے ”آپریشن فئیر پلے“ نے سب کی بساط ہی لپیٹ دی۔

اس کتاب کا تفصیلی مطالعہ بہت سارے اجتماعی غلطیوں سے پردہ چھاک کرتی ہے جو اگر نہ ہوتیں تو شاید آج صورتحال کچھ اور ہوتی۔

سیاستدان کبھی بھی اجتماعی فائدوں کے لئے شاید ایک نہ ہوسکے کیونکہ ملکی فائدوں پر یہ ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ مولانا کوثر نیازی لکھتے ہیں ”جب انتخابات کی تیاریاں عروج پر تھیں تو میں نے ذاتی طور پر پی این اے کو انتہائی ٹف ٹائم دیا۔ میں نے ایک جگہ تقریر کے دوران پی این اے والوں کو چیلنج دیا کہ اگر یہ لوگ نظام مصطفیٰ کے نفاذ میں اتنے ہی مخلص ہیں تو شاہ احمد نورانی مفتی محمود کی امامت میں نماز پڑھیں وہ اگر ایسا کریں گے تو ہم ان کے مقابلے میں اپنے تمام امیدوار بٹھادیں گے۔

میرے اس چیلنج کا جب بھٹو صاحب کو پتا چلا تو وہ مجھ پر انتہائی غصّہ ہوئے اور کہا کہ یہ لوگ اقتدار کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں ان کی کمزوریوں سے واقف ہوں۔ کچھ دن بعد ایک جلسے میں مفتی محمود نے شاہ احمد نورانی کے پیچے نماز ادا کی اور ایسا دکھاوا کیا گیا جیسے میرے چیلنج کا جواب دیا گیا ہو لیکن میں نے پھر ایک اور جلسے میں اپنی بات دوبارہ دہرائی کہ اگر شاہ احمد نورانی مفتی محمود کے پیچھے نماز پڑھیں گے تو تب ہی میں مان لوں گا اور ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وہ مذید لکھتے ہیں کہ اس کے ایک دن بعد لاہور ائیر پورٹ پرمیری ملاقات شاہ احمد نورانی صاحب سے ہوئی جس نے مجھ سے کہا، کوثر آپ نے ہماری دُکھتی رگ پرہاتھ رکھ دیا ہے ”۔

اس لمبی تمہید کا مقصد سیاستدانوں کا رویّہ ہے جو آج تک کبھی بھی اس ملک کے لئے ایک نہ بن سکیں۔ آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ حکمران مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور اپوزیشن والے یا تو جیلوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور یا مقدموں کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت کے بارے میں بھی اپوزیشن والوں کا یہی خیال ہے کہ یہ دھاندلی ذدہ ہے اور ہم نے ہر حال میں اس کے خلاف سڑکوں پر نکلنا ہے۔ ان کا شاید حکومت سے کوئی نظریاتی اختلاف نہ ہو لڑائی بس اقتدار کی ہے اور یہ ہر صورت چاہتے ہیں کہ ایوانوں کے اندر ان کو جگہ ملیں۔ وہی حالات بدقسمتی سے پھر پیدا ہوئے ہیں جس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونے والوں کو شاید یہ نہیں پتا کہ اقتدار کی اس لڑائی میں اور کچھ نہیں ہوتا بس نظام ہی پٹڑی سے اتر جاتا ہے۔ اتفاق سے اس دفعہ بھی عوام کسی نادیدہ قوت کے منتظر زندگی کے آلام و مصائب میں پِس رہے ہیں۔

ہمارے حالات آزادی سے لے کر آج تک ایک جیسے ہی رہے ہیں حکمرانوں پر ہمیشہ تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں اور اپوزیشن والے ہی اس عمل میں سب سے زیادہ آگے رہتے ہیں لیکن یہی اپوزیشن میں بیٹھے لوگ جب عنان اقتدار سنبھالتے ہیں تو پھر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

اس کتاب کی کہانیاں میرے سامنے اس وقت آگئیں جب میں نے سوشل میڈیا پر ”اسلامی صدارتی نظام“ کا ٹرینڈ صارفین کے والز پر دیکھا۔ ہم نے نظام کی تبدیلی پرسوچ بچار کیوں شروع کی اور ہم ہمیشہ نظام ہی کو بدلنے کی بات پر متفق کیوں ہوجاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پہلے ہم ایک بار اگر یہ سوچیں کہ نئے نظام کو لاگو کرنے کی بجائے ہم پرانے نظام کی وہ خامیاں ہی ختم کردیں جن کی وجہ سے وہ ناکام ہوا تو بہتر رہے گا۔ ہم نے یہ کوشش کبھی نہیں کی کہ نظام کو ناکام بنانے والے ان تمام لوگوں کا محاسبہ کریں جنہوں نے خود اپنے فائدے کے لئے نظام کو پٹڑی سے کئی بار اتارا۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظام کو بدلنے کی بجائے اگر اس کو پٹڑی سے اتارنا بند کیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ ہمارے سیاسی اکابرین نے ذاتی فائدوں کے لئے کئی بار اس کو پٹڑی سے اتارا۔

پچھلے دنوں وزیر اعظم صاحب نے اٹھارویں ترمیم کی بھرپور مخالفت کی لیکن جنہوں نے اس ترمیم کو آئین کا حصّہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا وہ اس کے حق میں برابر بولتے رہے۔ کوئی درمیان میں تو ہونا چاہیے جو خالصتاً پاکستان کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ہم سیکھنے والے لوگ نہیں ورنہ آج تک جو ہمارے اوپر گزرا وہ سبق لینے کے لئے کافی سے بھی زیادہ ہے۔

ہمارا بہت نقصان ہوتا ہے جب نظام پٹری سے اتر جاتا ہے اور اس کو پٹڑی سے اتارنے والے سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔

ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے کیونکہ نہ سیکھنے کی وجہ سے اور کچھ نہیں ہوتا بس نظام ہی پٹری سے اتر جاتا ہے جس کے نقصان کا ازالہ صدیوں میں بھی نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).