اُس ’پاکستان‘ کی کہانی جو ہندوستان میں بستا ہے


‘یہاں کوئی رہنما نہیں آتا، نہ ہی کوئی سرکاری بابو (افسر)، کبھی کبھی مکھیا آتا ہے، بس میڈیا والے آتے ہیں اور تصویر لے کر چلے جاتے ہیں۔’

گود میں ایک سالہ بچے سنبھالے دبلی پتی نیہا ایک سُر میں بولتی چلی جاتی ہے۔ وہ اپنی چھوٹی سی کریانے کی دکان پر کھڑی تھیں۔

ان کی دکان میں اداکار امیتابھ بچن کی تصویر والا ‘لال زبان چورن’، دلہن مارکہ گل (ایک قسم کا نشہ آور دانتوں کا منجن) سے لے کر روزمرہ کی ضروریات کا چھوٹا موٹا سامان مل جاتا ہے۔

بمشکل 40 روپے روزانہ کمانے والی نیہا ‘پاکستان’ میں رہتی ہیں۔ یاد رکھیے کہ یہ ‘پاکستان’ ہندوستان میں بستا ہے جو سرینگر سب ڈویژن میں آتا ہے۔

جی ہاں اسی ہندوستان میں جہاں آج کل پاکستان کا نام سنتے ہی لوگوں کی بھویں تن جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’گاؤں کے نام کی وجہ سے لوگ یہاں شادی نہیں کرتے‘

اجی سنیے!

انڈیا کا پاکستان کہاں ہے؟

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست بہار کے پورنیہ میں ضلع ہیڈکوارٹر سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر سرینگر سب ڈویژن کی سنگھیا پنچایت میں پاکستان نامی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہاں چھوٹے گاؤں کو ٹولہ کہا جاتا ہے۔

350 اہل ووٹروں والے اس گاؤں کی مجموعی آبادی تقریبا 1200 ہے۔

اس ٹولے کا نام پاکستان کس طرح پڑا اس کا ٹھوس جواب کسی کے پاس نہیں۔

ٹولے کے ایک معمر شخص يدو ٹوڈو بتاتے ہیں: ‘یہاں پہلے پاکستانی رہتے تھے۔ آزادی کے بعد انھیں حکومت نے دوسری جگہ بسا دیا۔ پھر ہمارے باپ دادا یہاں آکر بس گئے۔ لیکن پہلے یہاں پاکستانی رہتے تھے لہذا باپ دادا نے وہی نام رہنے دیا۔ کسی نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی اور آس پاس کے گاؤں والوں کو بھی اس سے کوئی پریشانی نہیں رہی۔’

نام پاکستان، لیکن سارے باشندے ہندو!

پاکستانی ٹولے میں سنتھالی قبائل آباد ہیں۔ یہ ہندو مذہب پر عمل پیرا ہیں۔ اس محلے میں جگہ جگہ مٹی کے چبوترے ملیں گے جس پر شِو لنگ نما چھوٹے چھوٹے دو دیوتا نظر آتے ہیں جن پر کوئی رنگ و روغن نظر نہیں آتا ہے۔

ٹوٹی پھوٹی ہندی بولنے والے یہ سنتھالی قبائل کاشتکار ہیں۔ دراصل یہ پورا علاقہ ہی شہری آبادی سے کٹا ہوا ہے۔ پاکستان کو دوسری آبادی سے صرف ایک پل جوڑتا ہے جو ایک خشک دریا پر بنا ہوا ہے۔

سرینگر سب ڈویژن کے مقامی صحافی چنميا نند سنگھ بتاتے ہیں: ‘اومیلي کے گزٹ میں اس بات کا ذکر ہے کہ اصل کوسی دریا، جو اب سپول میں بہتا ہے وہ 16ویں صدی میں یہاں سے گزرتا تھا ۔ اس دریا کو ہم آج کاری کوسی کہتے ہیں۔ دریا کی وجہ سے یہ علاقہ ایک بزنس پوائنٹ بھی تھا۔ چنكا پنچایت اور پاکستان ٹولے کے درمیان بڑی سطح پر کپڑوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ بعد میں دریا سوكھتا چلا گیا تو لوگ اس پر کھیتی کرنے لگے۔

سڑک، سکول، ہسپتال یہاں کچھ نہیں

پاکستان ٹولے میں حکومت کی کوئی بھی سکیم نظر نہیں آتی۔ پیشے سے ڈرائیور انوپ لال ٹوڈو نے پانچویں درجے تک تعلیم حاصل کی ہے۔ 30 سالہ انوپ کہتے ہیں: ‘ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی سرکاری علامت ضرور موجود ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں آگن باڑی، سکول کچھ نہیں ہے کیونکہ ہمارے گاؤں کا نام پاکستان ہے۔‘

وہ پوچھتے ہیں: ‘ہماری پیدائش تو پورنیہ ضلع میں ہوئی ہے۔ اب اگر اس گاؤں کا نام پاکستان ہے تو اس میں ہماری کیا غلطی ہے؟’

انوپ کی طرح منیشا بھی ناراض ہیں۔ 16 سالہ منیشا پڑھنا چاہتی ہے لیکن اس علاقے میں کوئی سکول نہیں ہے۔

دوپہر کا کھانا بنانے میں مشغول منیشا بتاتی ہیں: ‘ساتویں تک دو کلومیٹر پیدل جاکر تعلیم حاصل کی لیکن اس کے بعد سکول پاس میں نہیں تھا تو پڑھائی چھوٹ گئی۔ اسی طرح تمام لڑکیاں پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔ یہاں ہسپتال اور سڑک بھی نہیں ہے۔ کوئی بیمار ہو جائے تو راستے میں ہی مر جائے گا۔’

دراصل، پاکستان ٹولے سے سرینگر بلاک کے بنیادی صحت مرکز کا فاصلہ تقریبا 12 کلومیٹر ہے۔ اس درمیان جو ذیلی ہیلتھ مراکز ہیں ان میں مقامی لوگوں کے مطابق صحت کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی سڑک بھی نہیں ہے۔’

اگرچہ حکومت نے یہاں ایک سڑک کی تعمیر کے لیے رقم جاری کردی ہے، تاہم سڑک بنانے کے لیے ایک پیسہ بھی یہاں نہیں لگایا گیا ہے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے سنگھيا پنچایت کے سربراہ گنگا رام ٹوڈو کہتے ہیں: ‘منریگا (ایک بڑی سرکاری سکیم) کے تحت جس جگہ سڑک کی مٹی بھری جانی ہے وہ سرکاری زمین نہیں ہے۔ وہ ایک شخص کی زمین ہے جس کی وجہ سے یہ کام رکا ہوا ہے۔’

‘ٹی وی نہیں اسی لیے لوگ میل جول کے ساتھ رہتے ہیں’

مقامی لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان ٹولے کے متعلق سنہ 2006 کے آس پاس میڈیا میں باتیں آئیں۔ اس وقت سے، مقامی ذرائع ابلاغ کی یہاں آمدورفت جاری ہے۔ اس ٹولے میں تقریبا 30 گھرانے موجود ہیں لیکن کسی کے یہاں کوئی اخبار نہیں آتا۔ یہاں لوگ اوسطا پانچویں جماعت تک پڑھے ہوئے ہیں۔ دو سال قبل صرف سریندر ٹوڈو نامی ایک کسان کے گھر ٹی وی تھا۔

سریندر ٹوڈو کا کہنا ہے کہ ‘ہم کبھی کبھی خبر دیکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ انڈیا کا تعلق اچھا نہیں ہے، لیکن اسکا ہمارے ٹولے کے نام سے کیا تعلق ہے؟’

سنگھيا پنچایت کے سابق سربراہ پریم پرکاش منڈل نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘ٹی وی، اخبار یہاں نہیں آتے، اس لیے لوگ محبت سے رہتے ہیں۔ ورنہ یہ جگہ کہیں اور ہوتی، تو اس کا نام تبدیل کرنے کے لیے تحریک شروع ہو جاتی۔’

مزید عجیب و غریب نام

پورنیہ لوک سبھا حلقہ کے لیے دوسرے مرحلے میں انتخابات ہونے والے ہیں لیکن اس ٹولے میں اس حوالے سے جوش نہیں ہے۔ ٹولے کے تالیشور بیسرا کہتے ہیں: ‘کیا کریں گے، نیتا آئے گا، کرسی پر بیٹھے گا، پھر ہم لوگوں کو چھوٹا آدمی بول کہہ کر بھول جائے گا۔’

پورنیہ ضلع انڈیا کے قدیم ترین اضلاع میں سے ایک ہے۔ سنہ 1770 میں قائم اس ضلعے میں عجیب و غریب نام کی بھرمار ہے۔

جہاں پورنیہ ضلع میں ‘سرینگر’، ‘یوروپین کالونی’، ‘شرنارتھی (پناہ گزین) ٹولہ’، ‘لنکا ٹولہ’، ‘ڈكیتا’، ‘پٹنہ رہیكا’ وغیرہ ناموں سے موسوم مقامات ہیں، وہیں پڑوسی اڑریہ ضلے میں ‘بھاگ محبت’ اور کشن گنج ضلعے میں ‘ایرانی بستی’ نامی مقامات بھی ہیں۔

مصنف اور بلاگر گريندر ناتھ جھا کہتے ہیں: ‘پورے سیمانچل (سرحدی علاقے) میں آپ کو ایسے نام مل جائیں گے۔ لیکن میڈیا کو چونکہ اپنے فریم میں پاکستان نام ہی سب سے زیادہ راس آتا ہے اس لیے ہر الیکشن میں میڈیا والے پاکستان ٹولہ ضرور جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹولے کے حالات جوں کے توں ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp