عالم برزخ سے قندیل بلوچ کا خط


میں یہاں بہت خوش ہوں۔ یہاں کا موسم بے حد خوشگوار ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ سبزہ ہی سبزہ پھول ہی پھول۔ جدھر نگاہ اٹھاؤ قدرت کے حسین نظارے۔ ایسا لاجواب سماں کہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ تصویروں میں سوئٹزر لینڈ بالکل ایسا ہی دکھائی دیتا تھا۔ اونچے اونچے پہاڑ اور درمیان میں ہری بھری وادی۔ میرے دائیں جانب ایک آبشار ہے اور بائیں جانب ایک جھرنا۔ یہاں بیٹھ کر آپ کو خط لکھنے کا بہت مزا آرہا ہے۔ چاہتی تو تھی کہ آپ کو ایک ویڈیو کلپ ارسال کروں کہ دیکھو اس جنت جیسی جگہ پر میں کتنی حسین نظر آتی ہوں۔ لیکن افسوس یہاں انٹر نیٹ یا موبائل کا کوئی انتظام نہیں۔ میں تو سیلفی اتارنے کو ترس گئی۔ آخر آپ سے رابطہ کیسے ممکن ہو؟ میری اتنی بے قراری دیکھ کر ایدھی صاحب نے کہا چلو تم خط لکھ دو میں پہنچانے کا انتظام کر دوں گا۔ جی ہاں ایدھی صاحب بھی یہیں ہیں۔ ایک دن میں ان خوبصورت نظاروں سے لطف انداز ہو رہی تھی کہ ایک بچے کے ہنسنے کی آواز آئی۔ میں اس آواز کی جانب بھاگی۔ دیکھا تو ایدھی صاحب ڈھیر سارے بچوں اور شیر خواروں کے درمیان بیٹھے ان کی خوب خاطر تواضع کر رہے ہیں۔ ایک شیر خوار ان کی گود میں مزے سے لیٹا ہے اور ایدھی صاحب دودھ کی بوتل ہاتھ میں تھامے اس کو دودھ پلا رہے ہیں، تو دوسرے ہاتھ سے ایک بچے کو روٹی کا نوالہ کھلا رہے ہیں۔ یہاں جتنے بھی بچے ہیں ان سب کو کھانا کھلانے کا ذمہ ایدھی صاحب نے اپنے سر لے رکھا ہے۔

 میں نے ایک بار داروغہ سے پوچھا۔ بھائی اتنے چھوٹے بچے ماں باپ کے بغیر یہاں کیسے پہنچ گئے۔ اور بے چارے ایدھی صاحب ان سب کو کیسے سنبھالیں گے؟

کہنے لگا: جتنے بھی نا حق مارے گئے سب یہیں آئیں گے۔ ایدھی صاحب نے ان بچوں کی وجہ سے اپنا تبادلہ یہاں کرایا ہے ورنہ ان کو اوپر والا درجہ الاٹ کیا گیا تھا۔

 اچھا! اس سے اوپر ایک اور فلور بھی ہے، وہاں کون رہتا ہے؟ میں نے پوچھا۔

 ناحق مرنے والوں کو بچانے والے اوپر رہتے ہیں۔ اس نے کہا۔

کہا تھا نا میں مر گئی تو بہت مس کریں گے آپ مجھے۔ دیکھ لیا کتنا برا لگا آپ کو میرا دور جانا۔ کتنے آنسو بہائے کتنا پچھتائے آپ لوگ کہ کاش مجھے اتنا برا بھلا نہ کہتے۔ لیکن آپ میری فکر کرنا چھوڑ دیں۔ میں نے آپ سب کو معاف کر دیا ہے۔ ان کو بھی جو میرے انجام پر بہت خوش ہیں۔ جو مجھے اس سب کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ میں نے ان کی کم ظرفی کو بھی معاف کر دیا۔ وہ کیا جانیں یہ تو وہی جانتا ہے جس کے دل پر گزرتی ہے۔ جس کے اوپر بیتتی ہے۔ میں جن حالات سے گزری اس کا اندازہ وہ نہیں کر سکتا جو اپنے معاشرے اور رسم و رواج سے بغاوت نہیں کرتا۔ جو اپنے آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر میری زندگی کے بخیے ادھیڑتے ہیں وہ اس زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو پس ماندہ، جہالت اور غربت میں ڈوبے علاقوں کی قندیلیں بسر کرتی ہیں۔

دنیا میں صرف دو ہستیاں میری ذات سے مخلص تھیں۔ مرے اماں ابا۔ میرے غم نے ان کو زندہ در گور کر دیا۔ ان کی حالت مجھے سے دیکھی نہ گئی، میں ان سے لپٹ کر بہت روئی لیکن وہ مجھے دیکھ نہ سکے محسوس نہ کر سکے۔ میں نے چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کی لیکن ان کو میری آواز سنائی نہ دی۔ میں ان کے ہاتھ اور منہ چوم کر ان کو چپ کراتی رہی لیکن وہ تو بس میری لاش سے لپٹ کر روتے رہے۔ سوچتی ہوں اب ان کے مکان کا کرایہ کون دے گا۔ ان کی گزر بسر کیسے ہو گی؟ ان کے بڑھاپے کا سہارا کون بنے گا؟ ابھی تو انھوں نے زندگی کے چند اچھے دن دیکھے تھے جب سے میں نے کمانا شروع کیا تو ہمارے گھر سے بھوک ختم ہوئی۔ میرے بوڑھے ماں باپ کو دو وقت سکھ کی روٹی ملی تھی۔ میرے جیتے جی آپ سب کو فکر تھی کہ میری فحش تصویریں اور ویڈیوز اسلام کو بد نام کر رہی ہیں۔ میرے مرنے کے بعد کسی کو علم نہیں کہ میرے بوڑھے نادار بد قسمت ماں باپ کو سوکھی روٹی بھی کھانے کو ملی یا نہیں۔ کیوںکہ آپ کے اردگرد تو چھوٹی بڑی کئی قندیلیں ہوں گی جن کو سدھارنے اور راہ راست پر لانے کی ذمے داری آپ نے سنبھال لی ہو گی۔ ہے نا؟

مجھے بہت شکایت ہے ٹی وی والوں سے۔ میرے جنازے میں ان میں سے کوئی بھی نہ آیا۔ جنھوں نے گھنٹوں مجھ سے باتیں کیں، وہ بھی نہ آئے۔ انسانیت کے ناطے ہی آجاتے۔ اتنا چھوٹا سا جنازہ تھا میرا۔ کیوں دکھایا آپ لوگوں نے میرا جنازہ ٹی وی پر؟ میری ذات کا سارا بھرم توڑ دیا۔ اتنے کم لوگ، میرے لاکھوں فالوورز بھی نہیں آئے میرا آخری دیدار کرنے۔۔ مجھے خود میرا جنازہ بہت برا لگا۔ میں دھاڑیں مار کر روئی۔ آپ لوگ تو نہ آئے مگر پوری دنیا نے میری موت کی خبریں شائع کیں۔ پوری دنیا کے اخبارات میری تصویروں اور خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ مجھے بہت ہنسی آئی کہ دیکھو جو شہرت مجھے چاہئیے تھی وہ اب جا کر ملی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں بغاوت کا استعارہ بن کر مظلوم کی آواز بنوں گی۔ میرے بعد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔ اپنی عالمی مقبولیت پر خوش ہو کر قہقہے لگا رہی تھی کہ اچانک کانوں میں کسی کے گنگنانے کی آواز آئی۔

کرم مانگتا ہوں ، عطا مانگتا ہوں، الہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں۔

پلٹ کر دیکھا تو امجد صابری اپنی قوالی گنگناتے چلے آرہے تھے۔ مجھے دیکھا تو خوشی سے بولے۔ اچھا تو پہنچ گئیں تم بھی یہاں۔ میں نے کہا لو مجھے پتہ ہوتا کہ پوری دنیا میں مشہور ہو جاؤں گی تو کب کی مر گئی ہوتی۔ امجد بھائی کھلکھلا کر بولے: ہاں تم ہو تو اتنی ہی نادان۔

میں نے کہا آپ کو پتہ ہے آپ کا جنازہ کتنا شاندار تھا۔ مجھے تو کسی غیرت مند نے مار دیا۔ آپ کو کس نے مارا؟

بولے: تم کو کسی نے غیرت میں مارا اور مجھ کو کسی نے بے غیرتی میں۔ میرا جنازہ بڑا تھا لیکن تمھاری موت نے بہت سے لوگوں کی جھوٹی عزتوں کے جنازے نکال دئے۔ جنازے تو صرف دنیا کے لئے ہوتے ہیں۔ یہاں آکر پتہ چلتا ہے کہ جنازے فیصلہ نہیں کرتے۔ دیکھو آج ہم دونوں ایک ہی جگہ پر ہیں۔ کتنی اچھی جگہ ہے یہ۔ کل ایک داروغہ کہہ رہا تھا آگے تو اس سے بھی اچھی جگہ ملنے والی ہے ہمیں۔ تمھارے لئے خوشی کی خبر یہ ہے کہ تم میرے ساتھ قوالی گاؤ گی۔ ہم سب مل کر حمد نعت پڑھیں گے اور قوالیاں گائیں گے۔ تمھیں گانے کا شوق ہے نا؟ قوالی کی اس ٹیم میں تمھیں بھی شامل کروں گا۔ دیکھنا کتنی جلد مقبول ہو جاؤ گی۔ لاکھوں نہیں کروڑوں لایکس ملیں گے تمھیں۔ امجد صابری کی ان باتوں پر میں تو خوشی سے نہال ہو گئی۔ مجھے اپنی منزل مل گئی۔ امجد بھائی نے کہا میری جانب سے لکھ دو۔ اے پاکستانیو قوالی کا فن پاکستان سے مرنے نہ دینا۔

میرے اس خط پر بہت سے لوگ تلملا رہے ہوں گے کہ دنیا سے تو چلی گئی لیکن شہرت کی بھوکی نے پھر بھی اوچھے ہتھکنڈے اپنانا نہ چھوڑے۔ جو اس بات پر خفا ہیں کہ مرنے کے بعد مجھے اتنی عزت کیوں مل رہی ہے؟ اب تک مجھ پر کیوں لکھا جا رہا ہے؟ آخر یہ قصہ ختم کیوں نہیں ہو جاتا؟ میں تو معاشرے کے بگاڑ کا باعث تھی پھر میرے بارے میں لوگ بات کرنا بند کیوں نہیں کر دیتے؟ میں تو ایک بری عورت تھی پھر میری وجہ سے معاشرے کو کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟

تو اے لوگو ! تم نے مجھے اپنی نظروں میں گرا کر رب کی نظروں میں سرخروکر دیا۔ تمھارا شکریہ

کاش تم قندیل بلوچ کو لتاڑنے اور سدھارنے کے بجائے ایدھی صاحب کی طرح بے گور و کفن لاشوں کو کفن اور غسل دینے کا کام اپنے ذمے لے لو۔

آپ کی اپنی قندیل بلوچ

6 اگست 2016

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments