’جموں بارہمولہ ہائی وے کی بندش، پلوامہ حملے کی اجتماعی سزا‘


بھارت کے زیر انتظام کشمیر

شاہراہ کی بندش پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے

انڈیا کی فوج کی نقل و حرکت کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں محفوظ رکھنے اور ریاست میں عام انتخابات کرانے کا عذر پیش کرتے ہوئے چند دن قبل ریاستی حکومت نے جموں بارہمولہ ہائی وے کو ہفتے میں دو دن بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سکیورٹی کے نام پر ریاست کو زمینی راستے سے جوڑنے والی تقریباً 300 کلومیٹر طویل بارہمولہ جموں ہائی وے کو ہر ہفتے اتوار اور بدھ کو شہریوں کے لیے بند رکھنے کے حکم سے عام شہریوں کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بی بی سی اردو سروس نے چند کشمیری شہریوں سے بات کی۔

ریاست میں گذشتہ جون سے قائم گورنر راج کے اس انتہائی قدم سے عام شہریوں میں پائے جانے والے غم و غصے میں شدید اضافہ ہوا ہے اور کشمیری شہریوں میں اجتماعی طور پر ایک کھلی جیل میں رہنے کا احساس پیدا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اوڑی سے پلوامہ حملے تک

کشمیر: ریاست کے پاس کوئی راستہ نہیں

انڈین مسلم کشمیر کی تحریک میں کیوں؟

دہلی میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹریٹ کے طالب علم بشارت علی نے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عجیب سی بات ہے کہ دنیا کی مضبوط ترین افواج میں شامل ہونے والی فوج کو کشمیر میں کشمیریوں سے سکیورٹی چاہیے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر

شاہراہ کے بند ہونے سے پورا خطہ مثاثر ہو رہا ہے

انھوں نے کہا کہ کشمیریوں سے کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں اس لیے اتنی بڑی تعداد میں فوج اور سکیورٹی فورسز تعینات ہیں کہ عام لوگوں کو سرحد پار سے آنے والے ‘دہشت گردوں’ یا شدت پسندوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

بشارت علی نے کہا کہ حکومت کی یہ عجیب سی منطق ہے کہ انتخابات کرانے کے لیے آپ کو پوری آبادی کو قید کرنا پڑتا ہے۔

جن لوگوں سے ووٹ ڈلوا کر پوری دنیا کو یہ دکھنا مقصود ہوتا ہے کہ ریاست میں جمہوریت ہے اور اسے جمہورت کی فتح قرار دیا جاتا ہے ان ہی لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔

بشارت علی نے کہا کہ سب لوگ ایک غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔ ‘گھر جانے کا ارادہ کرتے ہیں تو سوچنا پڑتا ہے کب جائیں کب نہ جائیں۔ گھر والوں سے بات کریں تو وہ بھی شدید تذبذب کا شکار ہیں۔ بچے سکول نہیں جا سکتے، مریضوں کو ہسپتال نہیں لے جایا جا سکتا۔’

انھوں نے کہا کہ بہت سی ذیلی سڑکیں جو ہائی وے سے ملتی ہیں انھیں بھی بند کر دیا جاتا ہے جس سے معمولات زندگی بالکل مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔

کشمیر کے علاقے بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والے یاسر بشیر جو دہلی کی جامعہ ملیہ یونیوسٹی میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں ہائی وے کو بند رکھنے کے حکم کو پلوامہ حملے کی اجتماعی سزا قرار دیتے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر

انڈیا میں ان دنوں عام انتخابات ہو رہے ہیں

انھوں نے اس اقدام پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت ہند کی ان ‘کشمیر دشمن’ پالیسیوں کا حصہ ہیں جو سنہ 1947 سے ریاست میں تسلسل سے جاری ہیں۔

تاریخ کے طالب علم ہونے کے ناطے انھوں نے کہا کہ تاریخ میں کبھی بھی اس طرح کی تحریکوں کو طاقت کے زور یا ریاستی جبر سے دبایا نہیں جا سکا۔

یاسر بشیر نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات کی مثال آج کی دنیا میں صرف اسرائیل میں ملتی ہے۔

‘میں شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے بانڈی پورہ میں پیدا ہوا ہوں میں نے آج تک ایسے حالات نہیں دیکھے جیسے آج ہیں۔’ یہ الفاظ تھے جاوید پارسا کے جو کشمیر میں اس وقت سب سے بڑی ‘فوڈ چین’ چلاتے ہیں۔

جاوید پارسا نے اس حکم کو فوری طور پر واپس لیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کاروبار اس پابندی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور وہ اسلام آباد اور دوسری جگہوں پر اپنے دو ‘آؤٹ لیٹس’ بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

جاوید پارسا نے کہا کہ یہ حکم انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک کے لیے شرمندگی کا سبب ہونی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے سرینگر میں کیفے بھی متاثر ہوئے ہیں کیونکہ ان کے گاہک شہر میں نہیں آ پا رہے ان دو دنوں میں اور اسی طرح ان کے جو کیفے سرینگر سے باہر ہیں ان تک کچن سے سامان نہیں جا رہا اور وہاں بھی نقصان ہو رہا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر

بارامولہ جموں ہائی وے پر دو دن صرف سیکیورٹی فورسز کے لیے مخصوص کر دیے گئے ہیں

سری نگر سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر اویس قادر جامی نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس شاہراہ سے اوسطاً 100 کروڑ روپے کی اشیاء کی روزآنہ تجارت ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس پابندی کو وجہ سے اب 100 کروڑ کی اشیاء اور مال کئی کئی دن تک پھنسی رہتی ہیں۔ انھوں نے کہا مال اور اشیا لیے جانے والی گاڑیاں اور ٹرک کئی کئی دن پھنسے رہتے ہیں جس سے کرائے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس حکم کو جلد از جلد واپس لیا جانا چاہیے یا اس کو ختم کیا جانا چاہیے تاکہ کشمیر کا تاجر معمول کے مطابق تجارت کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp