ایک صاحب اختیار کی باتیں


ہانکا لگایا گیا۔ بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا۔ سچائی کا لاشہ بے گوروکفن پڑا ہے اور حکمران سینہ ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ عوام کی طاقت سے آئے ہیں۔ سب جھوٹ ہے، دھوکہ دہی ہے۔ عوام کے حق پر ڈاکہ مارا گیا اور سچ یہ ہے کہ انتخابات صاف شفاف ہوتے تو نواز لیگ کو شکست دینا ناممکن تھا۔ نواز لیگ نہ صرف پنجاب بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی قابل ذکر نشستیں لینے میں کامیاب ہو جاتی۔

گزشتہ سنچیر کو رات گئے مجھے ایک اعلیٰ فوجی افسر نے کال کی اور اتوار کا لنچ ایک ساتھ کرنے کی دعوت دی۔ انکار کرنے میں عافیت جانی مگر دوسری طرف پرزور اصرار پر حامی بھر لی۔ بریگیڈیئر صاحب سے میری ایک دو ملاقاتیں ہی ہوئی۔ کھانے کی نشست پر سیاست اور نیب کے کارنامے زیر بحث رہے۔

بریگیڈیئر کا کہنا تھا کہ نیب مشرف کا دیا ہوا سیاہ ترین قانون ہے۔ نیب میں جنگی بنیادوں پر ترامیم کی ضرورت ہے۔ مشرف دور میں کراچی نیب میں وہ اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ نیب لاہور کے موجودہ ڈی جی کے بارے میں انھوں نے انکشاف کیا کہ جس وقت ہم کراچی سے لاہور آتے تھے تو ان کا کام ہماری جی حضوری کرنا تھا۔ نیب کا المیہ مگر یہ ہے کہ یہ اڈٹ اعتراض پر بھی کیس بنا دیتے ہیں، کیس کی تہہ تک نہیں جاتے۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آڈٹ اعتراضات پر کیس بنائے جائیں یہ صرف مملکت خداداد میں ہی ممکن ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف مدت ملازمت میں توسیع لینا چائیں تو وزیراعظم کی کیا مجال کہ وہ انھیں توسیع نہ دیں مگر جنرل باجوہ کی منشا نہیں ہو گی کہ وہ توسیع لیں۔

یہ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف فوج کا بندہ ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ اگر فوج کا بندہ ہو تو وہ آج بھی وزیراعظم ہوتا۔ نواز شریف سویلین حقوق کی بات کرتے ہیں اور کرتے بھی ٹھیک ہیں۔ المیہ مگر ہمارا یہ ہے کہ یہاں مقتدر قوتیں سیاست کرنے سے باز نہیں آتی۔ بریگیڈیئر صاحب کا کہنا تھا کہ فوج کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے۔ اچھی بات ہے کہ عوام کو ادراک ہوا ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں؟ انھوں نے اپنے حقوق کی مانگ شروع کر رکھی ہے دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اب سوشل میڈیا کا دور ہے کوئی سازش چھپ نہیں سکتی۔

موجودہ حکومت کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے نااہل حکومت ہے۔ خزانے کی وزارت ایک ایسے بندے کے حوالے کر دی گئی جو باتیں کرنے میں تو اپنا ثانی نہیں رکھتا مگر عملی طور پر کسی کام کا نہیں۔ اسد عمر جانتا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ان کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان ہو گا اس کے لیے انھیں بھرپور تیاری کرنی چاہیے تھی۔ انھوں نے پاکستان کو بھی کھاد کا کارخانہ سمجھا ہوا ہے۔ بھائی یہ کھاد کا کارخانہ نہیں، بائیس کروڑ عوام کا ملک ہے۔ ہمارے ملک کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ دعویٰ یہ تھا کہ ان لوگوں کو اوپر اُٹھانا ہے ان کا معیار زندگی بلند کرنا ہے مگر ہوا سب کچھ اس کے اُلٹ، عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکل گئی۔ انسانیت سسک رہی ہے اور ہم پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم انسان ہیں۔

سیاست اصولوں کا پیشہ تھا اب ابولفضولوں کا مشغلہ بن چکی ہے۔ سیاست حالات سدھارنے کی تدبیر تھی، اب اہل وطن کے لیے تعزیر کا درجہ اختیار کر چُکی ہے۔ سیاست ایک فلسفہ تھا اب ماشاءاللہ لطیفہ کی سطح پر آ چُکی ہے، سیاست قوم کے فکری راہ کی ارتقاء تھی اب عوام کے لیے عقوبت گاہ ثابت ہو رہی ہے۔

ماضی پر نظر دوڑائیں تو ارباب سیاست سے اختلافات کے باوجود کتنے قابل احترام لوگ تھے۔ سر فضل حیسن جیسے لوگ وزیراعلیٰ اور اب عثمان بزدار اور محمود خان جیسے لوگ۔ کسی زمانے میں غلام اسحاق خان جیسے قابل لوگ وزیرخزانہ ہوا کرتے تھے اور اب اسد عمر جیسے، اقبال نے ان حادثوں سے پہلے مصرع موزوں کیا تھا۔

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشمین

پاکستان لیبارٹری نہیں کہ یہاں تجربات پر تجربات ہوں۔ ایک بار پھر کسی نئے تجربے (صدراتی نظام) کی بات شدومد سے کی جا رہی ہے، لہو رُلانے والے تجربے، دلوں کو چیر ڈالنے والے تجربے ان تجربات سے عوام کو کیا ملتا ہے، بھوک ننگ افلاس، ناکامی پر پھر ایک اور تجربہ کیا جائے گا۔

خُدا کے لیے اس مملکت پر رحم کیجیے اور جو نظام چل رہا ہے اسے چلنے دیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آتی جائے گی ہر ادارہ اپنی حدوو قیود میں رہ کر اپنے فرائض سرانجام دے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui