فاختہ والے خلیل خان اور ہزارہ شیعہ


آج آپ کی ملاقات خلیل خان سے کرواتے ہیں!

یہ اکیسویں صدی میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی فاختہ اڑائے پائے جاتے ہیں۔ خلیل خان کو کوئی غرض نہیں کہ دائیں ہاتھ والے گھرکا بڑا بیٹا اکثر بائیں ہاتھ والے گھر کی ملازمہ کوتتنگ کرنے چھت پر آجاتا ہے۔ خلیل خان سامنے ہوتے ہوئے بھی اندھے بن جاتے ہیں کیوں کہ ان کا کام فاختہ اڑانا ہے، محلے کے جوانوں کو ڈانٹنا نہیں۔

خلیل خان تو اس دن بھی چپ سادھے ہوئے تھے، جس روز انہوں نے اپنی آنکھوں سے سامنے والے گھر میں ان کی بہو کو مار کھاتے دیکھا تھا اور بعد میں شعلوں میں لپٹا اس کا جسم۔ پولیس آئی، تھانہ کچہری ہوا لیکن خلیل خان انجان بنے فاختہ اڑاتے رہے کیوں کہ یہ کسی کے گھر کا اندرونی معاملہ ہے۔

فاختہ کی محبّت دنیا کے ہر مسئلے سے برتر تھے۔ چاہے وہ جلتی ہوئی بہو ہو، یا محلے کے لڑکوں کی ٹپکتی ہی رال، خلیل میں اپنی دنیا میں مگن تھے۔

اپنی اس دنیا سے بس وہ رات کو کچھ دیر کے لئے باہر آتے ہیں اور گلی کے نکڑ پر چند ایک اور فارغ الاوقات حضرات کے ساتھ محفل جماتے ہیں۔ ایسی ہی ایک رات تھی جب محلے کے حیدر صاب نے کوئٹہ میں جمّعہ مبارک کی صبح سبزی منڈی میں ہونے والے بم دھماکے کا ذکر چھیڑ دیا۔ ساتھ ہی کچھ لوگوں نے تعزیتی گفتگو شروع کردی کہ کیسے شیعہ فرقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ کتنا پرامن دھرنا دے رہے ہیں۔

بس یہ سننے کی دیر تھی، خلیل خان نے فاختہ چھوڑ حب الوطنی کا دامن تھام لیا اور سب کو ٹوکتے ہوا کہا ”آپ لوگ تعصبی باتیں نہ کریں۔ شیعہ نہیں مرے، مسلمان مرے ہیں۔ ہمارا ملک تو امن کی فاختہ ہے وہ تو بس بھارت حاسد یہ سب کرا رہا ہے۔ “

حیدر صاب نے بارہا سمجھانے کی کوشش کی کہ لشکر جھنگوی نے یہ کہہ کر ذمے داری قبول کی ہے کہ یہ ہزارہ شیعہ پر حملہ تھا، لیکن خلیل خان امن کی فاختہ چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔

ایسے کئی خلیل خان آج ہمارے آس پاس موجود ہیں جوویسے تو چپ سادھے رہیں گے جب رمضان مینگل جیسا دہشتگرد رہا ہوجائے گا لیکن اس کے ٹھیک 3 دن بعد ہونے والے دھماکے کو پڑوسیوں کے نام کردیں گے۔

خلیل خان کی نظرمیں الزام لگانا آسان ہے، لیکن اپنے فیصلوں کی ذمے داری اٹھانا اس سے کہیں مشکل ہے۔

میں اکثر کراچی میں واقع قبرستان ”وادی حسین“ جاتی ہوں تاکہ اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ پڑھ سکوں یا رو لوں کیوں کہ اب تو روز حشر ہی ملاقات ہوئی تو ہوئی۔ وہاں کئی قبروں پر لال جھنڈا یا لال علم لگا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ شہدا ہیں جنہیں ”علی ولی اللہ“ کی پاداش میں مار دیا گیا۔

ہم میں سے عمومی طور پر لوگ اپنے گھر والوں، اپنے پیاروں کی لاشیں سلامت اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹکڑوں میں نہیں ہوتیں نہ تتر بتر سڑک پر پھیلی نہیں ہوتیں۔ لاش اٹھانے میں اور لاش سمیٹنے میں بڑا فرق ہے!

پاکستان کے شیعہ، خصوصی طور پر، ہزارہ شیعہ لاشیں سمیٹتے ہیں۔ کیا بزرگ کیا جوان، کیا شیرخوار۔ کیا بیٹا، کیا باپ، کیا بھائی، کیا شوہر!

اگر واقعی میں ”حسین“ کا صبر کسی نے اپنایا ہے تو وہ ہیں ہزارہ شیعہ جو ہر دفعہ خاموشی سے اپنے پیاروں کی لاش سمیٹتے ہیں، اور سڑک ک کنارے بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید اس بار حکومت ہماری سن لے۔

انٹرنیٹ کا دور ہے اور کسی بھی خلیل خان کو شاید 5 منٹ لگیں یہ جاننے میں کہ، 2001 سے 2018 تک پانچ سو کے قریب حملے شیعہ فرقے کے ماننے والوں پر ہوئے ہیں، جن میں سے 116 (ایک سو سولہ) حملے صرف ہزارہ شیعہ پر ہوئے ہیں۔ ہزارہ ویسے ہی گنی چنی برادری ہے جو کوئٹہ میں اپنا مسکن بنائے بیٹھی ہے اور جو غلطی سے مسکن سے باہر نکلی تو دھماکوں اور گولیوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔

حیرانی اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ، ہزارگنجی میں ہونے والے دھماکے سے 3 دن قبل ہی لشکر جھنگوی کے سربراہ رمضان مینگل کو حکومت نے رہا کیا تھا۔ بعد از، اسی تنظیم نے ISIS کی مدد سے یہ حملہ کیا جس میں چوبیس افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہیں۔

ہزارہ شیعہ برادری اپنے روایتی انداز میں پرامن دھرنا دیے بیٹھی ہے اور ان کی مانگ بس اتنی سی ہے کہ ان کے پیاروں کے قاتلوں کو پکڑا جائے، اور ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم عمران خان کوئٹہ آ کر ان کو گریہ و زاری سنیں۔ خان صاب نے بالکل سنی اور ٹویٹر پر ایک تعزیتی ٹویٹ بھی کردی جو مجھے امید ہے کہ ہزارہ برادری تک پہنچ گئی ہوگی۔

اب دیکھیں، بات کو سمجھیں، خان صاب وزیر اعظم ہیں، جگہ جگہ تو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ آپ انہیں کچھ ڈالر ادھار نا دے رہے ہوں۔ اسی لئے انہوں نے نئے زمانے کی تعزیت کردی۔

ہزارہ شیعہ ایک ایسی برادری ہے جو اپنے ہی شہر میں محصور ہے کیوں کہ حکومت انہیں محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ اس چھ سے آٹھ لاکھ کی برادری زخم ابھی بھرتے بھی نہیں کہ ظالم انہیں پھر سے کھرچ ڈالتے ہیں۔

پاکستان انسانی حقوق نیشنل کمیشن کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں صرف کوئٹہ شہر کے اندر 509 ہزارہ شیعہ ہلاک، اور 627 زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ افراد اپنے گھر سے کفن باندھ کر نہیں نکلے تھے، لیکن دہشتگردوں نے انہیں یا تو کفن پہنا دیا اور جو بچ گئے انہیں فاتحہ پڑھنے کو چھوڑ دیا۔

پڑھنے والے اور سننے والے کے لئے 509 ہلاکتیں بس اعداد و شمار ہیں لیکن دراصل یہ پورے پورے خاندان ہیں جو سماجی، ذہنی، اور سب سے بڑھ کر معاشی طور پر مفلوج ہوگئے ہیں۔

گلوبل اکسٹرمزم مانیٹر کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 95 % دہشتگردی کے واقعیات شیعہ مسلک پر ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں، پاکستان دنیا کے 10 سب سے خطرناک ممالک میں شامل تھا جہاں فرقہ وارانہ حملے ہوتے ہیں۔ پاکستان کا نمبر آٹھ تھا!

بہت سے پاکستانی بھی خلیل خان کی نسل سے ہیں۔ پھر بھی بتانا میرا فرض ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے شہر جھنگ نے نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی ک خلاف خراج عقیدت پیش کیا اور انسانی عکس کی صورت ایک مسجد کی شکل بنائی۔

یہ خراج عقیدت عین اسی دن دیا گیا جس دن کوئٹہ خون میں نہا گیا تھا۔

کیا آپ نے کبھی پاکستان میں مرنے والی اقلیتوں کے لئے کوئی ایسا حسین و دلکش، دل کو پرنور کر دینے والا خراج عقیدت دیکھا ہے؟
نہیں!
وو کیا ہے نا کہ اقلیت تو بس پاکستان سے باہر ہوتی ہے۔ پاکستان میں تو بس اکثریت ہے اور وہ بھی خلیل خانوں کی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).