ہمارا ”سچ“ اور اقوام عالم


ازل سے کائنات سچائی کے سنہری اصول پر قائم کی گئی ہے اور تا ابد سانچ کو آنچ نہیں۔ جھوٹ، فریب، پروپیگنڈا، ملمع کاری کسی بھی فرد یا قوم کو وقتی فائدہ دے سکتی ہے۔ لیکن مآل کار یہ لمحاتی امرت دھارا، زہر ہلاہل ہی ثابت ہوتا ہے۔ وطن عزیز جو کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ یہاں پر ہم نے بہت سے تجربات کیے ہیں سوائے ایک بار سچ کو آزمانے کے۔ میدان سیاست ہماری اس قومی افتاد طبع کی خاص جولان گاہ رہی ہے۔ اور اس ضمن میں ہم نے وہ کشتوں کے پشتے لگائے ہیں کہ ہند، سندھ میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کو اپنے ممدوح فیلڈ مارشل کے مقابل آنے کی پاداش میں غدار قرار دینے سے لے کر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو سیکیورٹی رسک قرار دینے تک ہم نے کئی معرکے سر کیے ہیں۔

لیکن اس میدان میی جو ہمہ جہت ترقی ہمیں گزشتہ چند برسوں میں دیکھنے کو ملی ہے اس کی داد نہ دینا بخیلی ہوگی۔ عوام کا لانام کے کروڑوں ووٹوں سے تین بار مسند وزارت عظمی تک پہنچنے والے اور مقدور بھر قومی خدمت کرنے والے سیاستدان کو جب ہم نے نشان عبرت بنا کر کھیل سے باہر کرنے کی ٹھانی تو دجل و فریب اور پروپیگنڈا کا وہ طوفان ہم نے اٹھایا کہ الامان الحفیظ اور اس خودساختہ سچ کو ہم نے حرف مطبوعہ سے لے کر ٹیلی ویژن اور سمارٹ فونز کی سکرینوں کے ذریعے اس قدر تواتر سے نشر کیا کہ معاشرے کا ایک معتدبہ حصہ اس کو سچ ماننے پر مجبور ہو گیا۔

دوسری طرف اپنے نو ایجاد کردہ نجات دھندہ اور ان کی ٹیم کی توصیف میں زمین و آسمان کے وہ قلابے ملائے گئے کہ غربت و جہالت کے مارے ہم پیاسے راہی ایڑیاں اٹھا ٹھا کر اس مسیحا کا رستہ تکنے لگے۔ کہ کب ہمارا کرشماتی لیڈر مسند افروز ہو اور ہمارے سب معاشی، عمرانی، سیاسی، قومی، بین الاقوامی دلدر دور ہوں۔ پانامہ ہنگامہ پردہ سیمیں پر کامیاب نمائش کے باوجود جب مطلوبہ نتائج نہ دے سکا تو ہم نے وٹس ایپ کے ذریعے بننے والی جے آئی ٹی کی زنبیل عمروعیار سے اقامہ نکالا اور وزیراعظم کو چلتا کیا۔ اس کے بعد مرحلہ درپیش تھا آمدہ قومی انتخابات کا جس میں پھر پروپیگنڈے کے اسی امرت دھارے کو بروئے کار لاتے ہوئے اور الیکشن کے دن تگ ودو کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ہمیں کامیابی مل گئی۔

لیکن اب نئی افتاد یہ آ پڑی ہے کہ قبل از انتخاب اور دوران انتخاب کیے گئے حسین وعدے اور جمیل دعوے منصہ شہود پر نہیں آ رہے۔ بلکہ الٹا لوگوں کو مہنگائی اور بیروزگاری کا عفریت تنگ کر رہا ہے۔ اخباری، فیس بکی اور نشریاتی مجاہدین اپنے مورچوں پر ڈٹے ہوئے ہیں لیکن لوگوں کی بے چینی کا مداوا کما حقہ نہیں ہو رہا۔ مہنگائی اور حکومتی نا کردہ کاری نوشتہ دیوار ہے لیکن ہمارے داعین انقلاب گزشتہ پروپیگنڈے کے سحر میں دل و جان سے نہ صرف خود رات کو دن مان رہے ہیں بلکہ اختلاف کرنے والوں کو کور چشمی کا طعنہ دے رہے ہیں۔

حالانکہ پشاور میٹرو، تیل کی بڑھتی قیمتیں، گیس کے بلوں کا اضافہ، ڈالر کی اونچی اڑان کے مقابل روپے کی نا قدری اور دیگر کئی حقائق ہمارا منہ چڑارہے ہیں۔ لیکن ہم بضد ہیں کہ انقلاب کا آفتاب عالم تاب طلوع ہو چکا ہے۔ اور اپنی ضیاء پاشیوں سے اس پاک دھرتی کو بقعہ نور بنا رہا ہے۔ اگرچہ قومی بنک اور دیگر مالیاتی اشارے کوئی اور کہانی سنا رہے ہیں

القصہ اطلاعات کی اس مہم جوئی سے ہم نے معاشرے میں ایک ایسا طبقہ پیدا کر لیا ہے جو ہماری دی ہوئی میڈیا لائن کے مطابق سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ نہ صرف خود مانتا ہے بلکہ دوسروں کو یہ ”حقیقت“ بزور بازو منوانے پر بھی مستعد ہے۔ ہم بحیثیت قوم اس State of Denial کے ساتھ اقوام عالم میں کیسے زندہ رہتے ہیں یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ہم خود تو خودساختہ حقیقت میں رہ لینگے لیکن کیا اس منطقے کی باسی باقی اقوام ہماری اس ”سچائی“ کو قبول کریں گی یا نہیں اور خاکم بدہن اگر باقی دنیا کا ذہن نا رسا ہماری اس ”پاکیزہ سچائی“ کو ماننے سے قاصر رہا تو ہمارے پاس کون کون سے امکانات باقی ہوں گے؟ کیونکہ 15 دسمبر 1971 کی چیختی چنگھاڑتی ہماری فتح کو 16 دسمبر کا سورج نگل گیا تھا۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).