”پڑھا لکھا“ اور ”لکھا پڑھا“ میں فرق


”پڑھا لکھا“ سے کیا مراد ہے یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ اِن الفاظ کو ایک دوسرے کے ساتھ جگہ تبدیل کرکے پڑھا جائے تو ”لکھا پڑھا“ بنتا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب بھی وہی لگتا ہے۔ عام محاورے میں اِن دونوں میں کوئی فرق ہو یا نہ ہو سیاسی میدان میں ”پڑھالکھا“ اور ”لکھا پڑھا“ ہونے میں واضح تضاد محسوس ہوتا ہے۔ آئیے چند مثالوں کو دیکھتے ہیں۔ جب پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو گورنر جنرل کے حکم پر برخواست کیا گیا تو اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے فیصلے کو فیڈرل کورٹ میں چیلنج کیا۔

فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے ان کی درخواست مسترد کرکے گورنر جنرل کا فیصلہ بحال رکھا۔ اب یہاں بات سمجھنے کی ہے کہ مولوی تمیزالدین نے وہ کیا جو انہوں نے جمہوریت کی کتابوں میں پڑھا تھا اور جسٹس منیر نے فیصلے میں وہ پڑھا جو اُن کے آقاؤں نے لکھ کر دیا تھا۔ لہٰذا مولوی تمیزالدین کے عمل کو ”پڑھا لکھا“ اور جسٹس منیر کے عمل کو ”لکھا پڑھا“ کہا جاسکتا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کو چیلنج کیا۔ اُن کی انتخابی مہم جمہوریت بمقابلہ ڈکٹیٹرشپ کے بینر تلے چلی۔

محترمہ فاطمہ جناح کو یقین تھا کہ پاکستان کے ووٹر جمہوریت کو پسند کرتے ہیں اس لیے جمہوریت ہی جیتے گی لیکن جب انتخابی نتائج کا اعلان کیا گیا تو جمہوریت ہار گئی اور جنرل ایوب خان جیت گئے۔ اب یہاں بات سمجھنے کی ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے وہ کیا جو انہوں نے جمہوریت کی کتابوں میں پڑھا تھا اور انتخابی نتائج سنانے والے الیکشن کمیشن نے وہی پڑھا جو اُن کے آقاؤں نے لکھ کر دیا تھا۔ لہٰذا محترمہ فاطمہ جناح کے عمل کو ”پڑھا لکھا“ اور اُس وقت کے الیکشن کمیشن کے عمل کو ”لکھا پڑھا“ کہا جاسکتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ طاقت کے اِس سرچشمے کو کوئی دوسری طاقت ختم کرنا چاہتی ہے تو انہوں نے عوام کی طاقت کے سرچشمے کے بل بوتے پر دوسری طاقت کو للکار کر کہا کہ ”قبر ایک ہے، دیکھتے ہیں اِس میں کون دفن ہوتا ہے؟ “ تاریخ نے دیکھا کہ اُس ایک قبر میں ذوالفقار علی بھٹو دفن ہوئے۔ اب یہاں بات سمجھنے کی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے وہ کیا جو انہوں نے جمہوریت کی کتابوں میں پڑھا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کا فیصلہ سنانے والوں نے وہی پڑھا جو اُن کے آقاؤں نے لکھ کر دیا تھا۔

لہٰذا ذوالفقار علی بھٹو کے عمل کو ”پڑھا لکھا“ اور اُس وقت کی عدالت کے عمل کو ”لکھاپڑھا“ کہا جاسکتا ہے۔ محمد خان جونیجو نے مارشل لاء کے تحت جمہوریت کا ناتواں دِیا جلاتے ہوئے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ وہ جمہوریت کی اس مدھم سی روشنی کو بڑھانے کی فکر میں لگ گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے سانحہ اوجڑی کیمپ کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش شروع کردی۔ ان کا اس طرح کے معاملات میں جرات والا رویہ پسند نہ کیا گیا اور انہیں آٹھویں ترمیم کے ذریعے گھر کا راستہ دکھا دیا گیا۔

اب یہاں بات سمجھنے کی ہے کہ محمد خان جونیجو نے وہ کیا جو انہوں نے جمہوریت کی کتابوں میں پڑھا تھا اور محمد خان جونیجو کو رخصت کرنے والوں نے وہی پڑھا جو آقاؤں نے لکھ کر دیا تھا۔ لہٰذا محمد خان جونیجو کے عمل کو ”پڑھا لکھا“ اور اُن کی برخواستگی کے حکم کو ”لکھا پڑھا“ کہا جاسکتا ہے۔ بینظیر بھٹو دو مرتبہ وزارت عظمیٰ سے برخواست ہوئیں۔ تیسری مرتبہ انہیں ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے وطن واپس نہ آنے اور انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کا کہا۔

بینظیر بھٹو خود کو انتخابی عمل سے روکنے کا مطلب جمہوریت کا قتل سمجھتی تھیں۔ وہ ڈکٹیٹر کی مرضی کے خلاف جمہوریت کو بچانے کے لیے واپس آئیں اور خود قتل ہوگئیں۔ اب یہاں بات سمجھنے کی ہے کہ بینظیر بھٹو نے وہ کیا جو انہوں نے جمہوریت کی کتابوں میں پڑھا تھا اور بینظیر بھٹو کے قاتلوں نے وہی پڑھا جو اُن کے آقاؤں نے لکھ کر دیا تھا۔ لہٰذا بینظیر بھٹو کے عمل کو ”پڑھا لکھا“ اور بینظیر بھٹو کے قاتلوں کے عمل کو ”لکھا پڑھا“ کہا جاسکتا ہے۔

نواز شریف دو مرتبہ وزارت عظمیٰ سے نکالے جانے کے بعد تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو کچھ زیادہ ہی جمہوریت کی کتابیں پڑھ گئے۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی اچھی نہیں ہوتی۔ انہوں نے آئین کے تحت وزیراعظم کے عہدے کو سب پر بالاتر سمجھا۔ جمہوریت کا زیادہ مطالعہ نواز شریف کے گلے پڑگیا اور انہیں وزیراعظم ہاؤس سے بذریعہ عدالت جیل پہنچا دیا گیا۔ اب یہاں بات سمجھنے کی ہے کہ نواز شریف نے وہ کیا جو انہوں نے جمہوریت کی کتابوں میں پڑھا تھا اور نواز شریف کے لیے وہی پڑھا گیا جو لکھا تھا۔

لہٰذا نواز شریف کے عمل کو ”پڑھا لکھا“ اور اُن کے سیاسی مستقبل کو ”لکھا پڑھا“ کہا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے 30 اکتوبر 2011 ء کو جب مینار پاکستان لاہور پر پہلا سونامی جلسہ کیا تو سب کو صاف صاف پتہ چل گیا کہ اُن کے پاس وہ والا پیج ہے جس پر سب ایک ہیں۔ اُن کے اپوزیشن والے جلسے ہوں یا 126 دن کا کنٹینر والا دھرنا، انہوں نے اُسی ”ایک پیج“ پر لکھی تحریر کو ہی پڑھا۔ لکھے ہوئے کو پڑھنے والا تحریر کی کسی بھی غلطی کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کی اب تک کی تمام تر ناکامیوں کے باوجود وزیراعظم عمران خان کا خوداعتماد لہجہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ”ایک پیج“ پر لکھی تحریر کو پڑھنے میں ابھی تک کوئی غلطی نہیں کررہے۔ سیاسی مخالفین کو لتاڑنا ہو یا تگڑا جواب دینا ہو، مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد بھارتی جارحیت کے جواب میں صلح پسندانہ رویہ اختیار کرنا ہو یا بھارتی وزیراعظم مودی کی انتخابی کامیابی کے ساتھ اچھی توقعات جوڑنا ہوں، اِن سب اچھے لکھے کو عمران خان کا اچھا پڑھنا کہا جاسکتا ہے۔

البتہ وزیراعظم عمران خان کے بی بی سی کو دیے جانے والے تازہ انٹرویو جس میں انہوں نے کہا کہ ”1980 ء میں بننے والی مسلح ملیشیاء کی اب ضرورت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ“ کو سمجھنے میں کچھ تذبذب پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا عمران خان نے یہ بات پہلے کی طرح ”ایک پیج“ پر لکھی تحریر سے پڑھی تھی یا انہیں آکسفورڈ میں پڑھے جمہوریت کے قاعدے کا کوئی صفحہ یاد آگیا تھا؟ یہ دیکھنے کے لیے ابھی کچھ مزید انتظار کرنا ہوگا کہ عمران خان کا مستقبل ”پڑھا لکھا“ ہے یا ”لکھا پڑھا“؟ امید ہے سیاسی طور پر ”پڑھا لکھا“ یا ”لکھا پڑھا“ ہونے میں فرق واضح ہوگیا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).