دادا، پوتا اور دہشت گردی


دادا یہ موت کیا ہوتی ہے؟ بچے کو بیٹھے بٹھائے پتا نہیں کیا سوجھی۔

دادا: پتہ نہیں بیٹا اب تو یہاں یہ پتہ کرنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کیا ہوتی ہے۔

پوتا: دادا جی لوگ کیوں ایک دوسرے کو کیوں مارتے ہیں۔ جسے ہم دہشت گردی کہتے ہیں۔

دادا: بیٹا کیونکہ لوگ ایک دوسرے کو زندہ نہیں رکھ سکتے اس لئے مار دیتے ہیں۔

پوتا: پر دادا کیوں؟ کیوں وہ ایک دوسرے کو زندہ نہیں رکھ سکتے۔

دادا: تمہیں سانپ نظر آئے گا تو کیا کرو گے؟

پوتا: ماردوں گا۔

دادا: کیوں؟

پوتا: نہیں تو وہ مجھے مار دے گا۔

دادا: یعنی خوف کی وجہ سے تم سانپ، چھپکلی اور دوسرے جانوروں کو مارتے ہو بھلے ان کا مقصد اٹیک ہو یا نہ ہو۔ بیٹا یہ لوگ بھی اندر سے ڈرے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک چیز موجود ہے جسے یہ ڈر کہتے ہیں۔ سو وہ محبتیں کہاں سے دیں گے۔ وہ ڈر کی وجہ سے دوسرے انسان کو بس ماریں گے۔ بیٹا اصول ہے کہ ڈرے ہوئے لوگ صرف ڈرا ہی سکتے ہیں جن کی زنبیل میں ڈر موجود ہے وہ اس میں سے کیسے کوئی اور چیز نکال سکتے ہیں۔

پوتا: جن کو یہ مارتے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟

دادا: یہ ان سے ڈرتے ہیں جیسے تم چھپکلی اور سانپ سے ڈرتے ہو۔ حالانکہ وہ تم سے ڈرتے ہیں۔ جیسے تم اونچائی سے ڈرتے ہو۔ جیسے تم اپنے استاد سے ڈرتے ہو حالانکہ استاد تمھاری اصلاح کے لیے تمھیں ڈانٹتے ہیں۔ یہ بھی اسی طرح ڈرتے ہیں کہ کہیں دوسرے لوگ ان کے باطل نظریات، غلط آئیڈیولوجی کو چیلنج نہ کر دیں۔ انہیں غلط ثابت نہ کردیں۔ اس لیے یہ ان لوگوں کو بھی سانپ جیسا خطرہ سمجھتے ہیں۔ بیٹا ان کے پاس دلیل نہیں ؛حوالہ نہیں۔

ان کے ذہنوں میں کچھ بھی مثبت نہیں۔ یہ وہی لوٹائیں گے جس کی بنیاد ان کے ذہنوں میں رکھی ہوگی اور ان کے ذہنوں کو انسان سے نفرت کے اصول پر تیار کیا گیا ہے۔ سچ پوچھو تو ان کے مالکوں نے ان کے ذہنوں میں ہدایات اور نظریات کی ایک لسٹ بھر دی ہے اور یہ کسی روبوٹ کی طرح اس لسٹ سے باہر کبھی نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ہمیشہ اسی لسٹ کے حساب سے چلتے ہیں۔ ان کے ذہن میں نفرت بھرنے والے مالک کبھی نہیں چاہتے کہ یہ جہاں میں محبتیں تقسیم کرتے پھریں۔

پوتا: آپ کہتے ہیں کہ ہم سب کے اصلی مالک اللہ تعالی ہیں پھر ان کے مالک کون ہیں؟

دادا:بیٹا جو اللہ کو مالک سمجھتے ہیں نا وہ چیونٹی کو بھی مارتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ان کے مالک وہ ہیں جو خدا خوفی سے کوسوں دور ہیں جن کے ذہنوں میں صرف نفرت موجود ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ صاف چشمے سے صاف پانی ہی آتا ہے اور گندے جوہر سے کبھی صاف پانی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ بیٹا ان کے اندر محبت، انسانیت، اخلاق اور انسانی جانوں کا احترام ہوگا تو یہ بدلے میں انسانیت کا احترام لوٹائیں گے نا۔ ان کا ذہن تو منفی جذبوں سے لبریز کیا جاچکا ہے۔ یہ کسی غلام کی طرح مالکوں کے حکم کی پیروی کرتے ہٰیں اور ان سب چیزوں کو ایک نظرئے کی شکل دے دیتے ہیں جسے ان کے بعد والے ایک نظام سمجھ کر تابعداری کرتے ہیں۔ اس طرح نفرت کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

پوتا:دادا پھر ان کا حل کیا ہے؟

دادا: بیٹا جب زمین بنجر ہو اس سے کیا امید ہوگی؟ جب کسی درخت کی جڑ میں ہی مسئلہ ہو تو تنوں پر جتنی محنت کر لو کچھ نہیں ہوگا۔ بیٹا ان کو بھی جڑوں سے ٹھیک کرنا ہوگا۔ جڑ پر سپرے ہوگا، صفائی ہوگی تو تنے خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے مگر افسوس ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ کچھ شاخوں کو کاٹا جاتا ہے اور جڑ کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے۔

پوتا: دادا دہشت گردی کی جڑ کہاں ہے اور اس جڑ کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟

دادا: بیٹا دہشت گردی کی جڑمختلف ذہنوں میں ہے۔ ذہنوں کو بدلنا ہوگا، سسٹم کو بدلنا ہو گا تم پوچھو گے کیسے تو سنو، علم کے ذریعے، فکروں کو تبدیل کرکے اور ان کے مالکوں کو ان کے نظریوں سمیت ختم کرکے ہی اس جڑ کو ختم کیا جاسکے گا۔ مالک کے نظریے کو شکست ہوگی تو باقی عملہ بھی مغلوب ہی ہوگا ورنہ مالک نظریوں کی فیکٹریوں سے مزید روبوٹ بناتے جائیں گے۔ بھلے شاخ کو روز صاف کیا جائے گا مگر جڑ سے اسی طرح روبوٹ نکلتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).