رہف، من چاہی زندگی اور ارتداد


ہوا کچھ یوں کہ رہف محمد مطلق القنون نام کی ایک بیس سالہ لڑکی سعودیہ سے بھاگ کر تھائی لینڈ پہنچی۔ یہاں سے اس کا ارادہ کسی مغربی ملک کو فرار کا تھا۔ یہاں جس ایجنٹ کو اس نے اپنا پاسپورٹ دیا کہ وہ اس کے فرار کا انتظام کرے وہ شخص پاسپورٹ لے کر رفوچکر ہو گیا۔ اب محترمہ کو تھائی حکام نے سعودیہ ڈی پورٹ کرنے کا ارادہ کیا تو محترمہ نے کئی ٹویٹ شروع کیے جس میں انہوں نے سارے عالم سے مدد طلب کی کہ ان کی امداد کی جائے ورنہ اگر ان کو سعودیہ واپس بھیجا گیا تو وہ اپنے اہل خانہ کے ہاتھوں ہلاک ہو جائیں گی۔ محترمہ نے اپنی آزادیوں کا خوب رونا رویا جو ان کو اپنے وطن میں میسر نہ تھیں۔ محترمہ کے والد سعودیہ میں ایک بڑے حکومتی عہدے پر فائز ہیں، بہرحال ہر طرف سے مغرب سے ان کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ محترمہ کی ٹویٹر پر فالونگ بڑے طوفانی انداز میں بڑھ گئی، ان کا ایک ٹویٹ ملاحظہ فرمائیں۔

Based on the 1951 convention and the 1967 protocol،

I ’m rahaf mohammad۔

formally seeking a refugee status to any

country that would protect me

from getting harmed or killed

due to leaving my religion and torture from my family۔

اس ٹویٹ میں ”Leaving my religion“ قابل غور ہے۔ بس پھر کیا تھا، محترمہ کی مدد کو پورا مغرب ہی امنڈ آیا۔ بالآخر محترمہ 12 جنوری 2019 ء کو اپنی جنت ارضی کینیڈا کے ٹورانٹو شہر کے ایئرپورٹ پر مغربی لباس میں ملبوس پریس کانفرنس کرتی نظر آئیں۔ خیر رہف محمد نے تو اپنی جنت پا لی۔ اس کو آزادیاں چاہیے تھیں، بال کٹوانے کی آزادی، اپنی مرضی سے کسی سے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کی آزادی، کپڑے پہننے کی یا سر برہنہ رہنے کی آزادی اور الغرض مذہب کی لگائی ہر پابندی سے آزادی۔ بقول رہف محمد ”Leaving my religion“ کی بھی آزادی۔ خیر یہ سب آزادیاں اب رہف محمد کو مل گئی ہیں۔

رہف کو مغرب کی فضا میں سانس لینے کے لئے، وہاں پر ہمیشہ رہنے بلکہ بغیر کچھ بڑا کیے، کوئی کارنامہ کیے مغرب میں ایک اسٹار کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے محض ٹویٹر پر چند ٹویٹ کرنے کی دیر تھی۔ اس کو بس آزادیوں کا ماتم کرنے کی ضرورت تھی، اس کو بس یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ وہ پردے میں سکڑ کر رہ گئی ہے۔ اسے بھی ہر قسم کی آزادیاں درکار ہیں اور وہ وطن واپس گئی تو اسے مار دیا جائے گا کیونکہ اس نے اپنا مذہب، اپنا دین بھی چھوڑ دیا ہے۔

ویسے مذہب کو چھوڑ دینے والے کو مذہبی اصطلاح میں مرتد کہا جاتا ہے۔ مغرب میں اسلام چھوڑنے والے یا اسلام کو گالی بکنے والے ہر شخص کے لئے بڑی جگہ ہے۔ ایسا فرد اگر کسی مسلم ملک کا ہی رہائشی ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اسلام، اس کی اقدار، اس کی ثقافت، اس کی کسی بھی نشانی پر تنقید کرنے والا مغرب میں ہیرو بن جاتا ہے۔ وہاں پر سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی پذیرائی اور اس نوع کے ہر کردار کو ہیرو بنا دینے کی روش نے مغرب میں آسان انٹری حاصل کرنے والوں کے لئے رستہ کھول دیا ہے۔

ایسے لوگوں کے لئے مغرب دنیا کی ہر نعمت فراہم کر دیتا ہے۔ پھر ان کو روزی کمانے، گھر بنانے اور کچھ بھی پانے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی اور ساتھ ہی ایک سلیبرٹی کا اسٹیٹس علیحدہ سے مل جاتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ ان کا یہ سلیبرٹی کا مقام تو ختم ہو جاتا ہے مگر اتنی دولت یہ پا چکے ہوتے ہیں کہ آرام سے گزارہ ہو جاتا ہے۔ پھر اپنی مغربی جنتوں میں ان کو اپنی پسند کی زندگی بھی مل ہی جاتی ہے۔ یہ خواب بعض افراد کے لئے اس قدر دلکش ہوتا ہے کہ وہ اس کے لئے سب کچھ تیاگ سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع یعنی ایمان بھی۔

اس نوع کے بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو مغرب چلے نہیں جاتے بلکہ اپنے ملکوں میں رہ کر ہی مغرب کی دلالی کرتے ہیں۔ اس فہرست میں نت نئی این جی اوز اور ہمارے ذرائع ابلاغ کے بہت سے کارندے شامل ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہی وطن کے ایک اہم انگریزی اخبار میں پورے صفحے کا توصیفی مضمون رہف محمد کے بارے میں چھپا۔ اس مضمون میں رہف کا وہ ٹویٹ بھی شائع کیا گیا کہ جس میں اس نے اپنا مذہب چھوڑ دینے کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اس مضمون میں رہف کے لئے تعریف ہی تعریف ہے۔

یہ مضمون دو خواتین کی تحریر ہے، سوال یہ ہے کہ ان کو اگر رہف بننے کا موقع ملا تو یہ کیوں رکیں گی؟ یہ جو ”بولو بھی“ جیسی این جی اوز FIA کے دفاتر کے سامنے مظاہرے کرتے ہیں تو کیا ان کو ان کے مغربی آقاؤں سے اس کام کا معاوضہ نہیں ملتا؟ مگر سوال یہی تو ہے کہ جب انسان گر جائے اس کو کسی بھی چیز سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ایسے انسان اپنی لالچ کے لئے کیا چیز فروخت نہ کر دیں گے؟ ایمان کیوں نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).