پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر : (Post Traumatic Stress Disorder)


انسانی تاریخ میں ایک دوسرے سے نفرتوں کے نتیجے میں بہیمانہ ظلم و ستم ہے تو جنگ و جدل کی وحشتیں بھی، قدرتی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب اور طوفان ہیں تو قحط سالی کے نتیجہ میں بھوک کی عفریت کا سامنا بھی، سرعت رفتاری سے سرپٹ دوڑتے وقت میں ٹیکنالوجی نے دنیا کو ”عالمی گاؤں“ کی صورت میں بہت قریب کر دیا ہے۔ مگر اس قربت کے باوجود محبت، امن آشتی کے بجائے نفرت کا بھیانک خونخوار اور درندہ صفت دیو بنی نوع انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔ فلسفی شاعر سید محمد تقی چار دھائی قبل فرما گئے ہیں۔

پہلے بھی خراب تھی دنیا

اب اور خراب ہو گئی ہے

دکھ و آلام کی یہ افتاد خواہ قدرتی ہو یا انسانوں کی ایک دوسرے پر ستم کشی، سانحہ اندرونی ہو یا بیرونی، جسم و جاں پر گزرنے والے سانحے (Trauma) انسان کو خوف، ذہنی خلفشار، اذیت، بے بسی اور نا امیدی کی اس کیفیت پہ پہنچا دیتے ہیں کہ جس کو طبی اور نفسیاتی سائنس کی دنیا میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا نام دیا گیا ہے یعنی سانحہ گزرنے کے بعد (صدمہ کے نتیجہ میں ) میں ذہنی دباؤ۔

پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی تفصیل میں جانے سے پہلے کچھ کہانیاں پڑھیں۔

اسٹیفنی کی کہانی:۔ چودہ سالہ خاموش طبع اسٹیفنی روز ہی ایک میل پیدل چل کر سکول سے گھر پہنچتی تھی، لیکن ایک دن بڑی عمر کے مردوں نے اس کے ساتھ زبردستی جنسی فعل انجام دیا اور پھر اس کودھمکی کے ساتھ واپس وہیں چھوڑ گئے کہ اگر کسی کو بتایا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گی۔

اسٹیفی نے ڈر کے مارے نہ ہی اپنے باپ کو بتایا اور نہ ہی سوتیلی ماں سے اس کا ذکر کیا۔ اس کی حقیقی ماں چار سال پہلے مر چکی تھی۔ واقعہ کے بعد اسٹیفنی وہ نہ رہی جو تھی۔ اس کی شوخیاں غائب ہو گئیں، کم خوابی کا شکار اسٹیفنی رات کو نیند میں چیخیں مار کر اٹھ بیٹھتی اس کو اپنے وجود سے گھن آنے لگی۔ اس نے یہ واقعہ کسی کو نہیں بتایا۔ اس کا دل پڑھائی سے یکسر اچاٹ ہو گیا۔ نا امیدی، بے بسی نے اس کے دل میں گھر کر لیا۔ اب وہ نشہ آور ادویات بھی لینے لگی۔ لیکن اس کا غصہ اور بے چینی کسی صورت کم نہیں ہوتی۔ دو سال گزر جانے کے باوجود زنا کا عمل اس کی یادون کا حصہ بن کے بیمار کر چلا ہے، لیکن وہ اس واقعے کے ذکر سے گریز کرتی ہے۔ جیسے وہ کسی اور پہ بیتا ہو۔

مائیکل کی کہانی :مائیکل ایک ریٹائرڈ آرمی کیپٹن ہے۔ جو دو دفعہ امریکہ سے عراق جنگ میں حصہ لینے جا چکا ہے۔ بالآخر جب وہ سالوں بعدمستقل امریکا رہنے آیا۔ تو اس کی بیوی اس کی سویٹ ہارٹ نے محسوس کیا کہ مائیکل کی شخصیت میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ اس کی طبیعت میں غصہ جھنجھلاہٹ آ گئی ہے۔ چار جولائی کے فائر ورک والے دن بجائے فکر سے سینہ پھیلانے کے اس نے گھر واپس چلنے پر اصرار کیا۔ فا ئر ورک کی آوازوں سے اس کو جنگ کے گولوں، گولیوں اور دھماکوں کی یاد آنے لگی۔ تیز رنگین روشنیوں سے اسے آگ اور خون کی ہولی کا خیال آنے لگا۔ واپس آنے کے بعد اس کی جھنجھلاہٹ اور اداسی عروج پہ تھی اور مجموعی طور پر شراب نوشی کا استعمال بھی حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ رات کو سونا مشکل ہوتا ہے اور اب وہ ٹی وی پر خبریں دیکھنے سے گریز کرتا ہے کہ جو اس کو جنگ کی وحشتوں کی یاد دلاتی ہیں۔

یہ دونوں کہانیاں ایسے انسانوں کی ہیں جو شدید ٹراما یا سانحوں سے گزرے ہیں۔ ٹراما کہ جس کا ابتدائی ردعمل خوف اور نتیجہ بے بسی، مایوسی اور بے تحفظی کا شدید احساس ہے اور یہ ٹراما ہی ہے جو کچھ شدید صورتوں میں پی ٹی ایس ڈی کا سبب بنتا ہے۔ یعنی وہ کیفیت غالب آ جاتی ہے کہ بیرونی پر خطر حالات سے نبردآزما ہونے کے بجائے انسان کی اندرونی اور بیرونی قوتیں سلب ہو جاتی ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سی افتاد ہیں جو ٹراما کا سبب بن سکتی ہیں۔

1۔ ذہنی، جنسی اور جسمانی تشدد

2۔ بچپن کے تشدد کہ جس کا اثر سب سے زیادہ ذہنی صحت پہ ہوتا ہے۔

3۔ والد کا اولاد کو تیاگ دینا/ طلاق

4۔ ہجرت یا نقل مکانی

5۔ دہشت گردی کے واقعات / ڈاکہ / چوری۔

6۔ جنگ و جدل

7۔ اغوا کرنا

8۔ قدرتی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب، آگ لگ جانا، کسی پیارے کی موت، بیماری وغیرہ

اگر دیکھا جائے ہم میں سے ہر ایک ہی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پہ ایسے کسی سانحہ یا ٹراما سے گزرتا ہے کہ جن کا اثر ہمارے دل و دماغ پر شدید ہوتا ہے، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس شدت میں کمی آ جاتی ہے اور انسان اپنی روزمرہ زندگی کے امور میں دوبارہ مستعد ہو جاتا ہے۔ البتہ کچھ افراد کی تعداد ایسی بھی ہوتی ہے کہ جو اس کیفیت میں جکڑ جاتے ہیں۔ ان کا روزمرہ زندگی کے معمول پر آنا ممکن نہیں ہوتا یہی کیفیت دراصل انگزائٹی کی قسم پی ٹی ایس ڈی ہے۔ امریکہ میں اس کی شرح اوسطاً 3.6 فیصد ہے۔ جو زندگی کے کسی موڑ پہ (بشمول بچوں کے ) پیش آ سکتی ہے۔ عورتوں میں اس کا تناسب مردوں کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ اس کی وجہ غالبا عورتوں پہ جنسی تشدد اور گھریلو تشدد کی زیادتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2