اسلام آباد میں گردش کرنے والی چند سازشی تھیوریاں


کافی برسوں کی بات ہے، اسلام آباد، سازشی اقتدار کے شہر میں۔ اشاروں کی زبان میریٹ ہوٹل کی لابی میں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔
ہوٹل لابی میں ایک طرف راولپنڈی کے سیاستدان (یعنی وہاں کے رہائشی سیاستدان) شیخ رشید، جنرل ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق، صحافیوں کو لئے ہوئے بیٹھے ہوتے تھے۔
اور بہت سے اقتدارسے جڑے رہنے والے سیاستدان گنو تو ہاتھوں کی انگلیاں کم پڑجائیں۔

کب بے نظیر کی حکومت جانے والی ہے۔ نواز شریف کو جسٹس سجاد علی شاہ اور جنرل کاکڑ سے ٹاکرا مہنگا پڑے گا، کب نواز شریف کو جنرل مشرف کے ہاتھوں اقتدار کھونا پڑے گا۔ ”حقیقی لوگ“ کیا سوچ رہے ہیں۔

سازشی تھیوریاں۔ بیان کے لیے اشارے کندھوں پر ہاتھ رکھنا۔ آنکھوں میں انگلیوں کا رخ کرنا۔
سمجھنے والوں کا ہوٹل لابی میں کالی واسکٹ میں گھومتے پھرتے نظرآنا۔

حکومتوں کا جوڑتوڑ، کس کو گرانا، کس کو پچھاڑنا ہے۔ کیا کیا نظارے دیکھنے کو ملتے تھے۔ جناب منظور وٹو اسمبلی گرانے کے لئے ایم پی ایز کو اسلام آباد میں لائے تو میریٹ لابی میں بہت کچھ دیکھا گیا۔ لڑکھڑاتے سیاستدان، رات گئے اونچی ہیل والی خواتین، سیاسی لوٹے، کی اصطلاح یہیں عوامی ہوئی اور سیاسی لیڈر رسوا بھی خواب ہوئے۔ کس نے پیسہ لگایا، ماضی میں جھانکو تو آئی جے آئی کا بننا، پیسوں کی تقسیم، بہت سیاسی، غیرسیاسی شخصیات کے دامن میلے میلے سے۔

ہوٹل لابی اس وقت غیرمحفوظ سمجھی جاتی تھی ریکارڈنگ کا ڈر، ویٹرزپر جاسوسی کے شکوک وشبہات۔ ڈائریاں بھرنے والوں کی فہرست میں شامل ہونے کا خطرہ وغیرہ وغیرہ۔

وقت بدل گیا۔

ہوٹل لابی سے سیاسی، غیرسیاسی لوگ، اینکرز، صحافی، اب کوہسار مارکیٹ پر مجمع لگاتے ہیں۔ گورے اور گوریاں گھومتے نظرآتے ہیں۔ فیشن ایبل علاقہ، ٹیبل ٹاک اور اسٹریٹ ون کیفے کھلے میں بیٹھنا۔ ہوٹل لابی سے کوہسار مارکیٹ، سازشی تھیوریاں پھر سے لبوں پر۔ اظہار کے لئے وہی کندھوں پر ہاتھ رکھنے والے اشارے۔ عمران خان حکومت سے ”حقیقی لوگوں“ کا دل اٹھتا جارہا ہے، گورننس میں غیر فعال معیشت کے بے لگام گھوڑے کو قابو کرنے میں ناکامی، پنجاب میں بزدار کی تعیناتی اور کارکردگی پر تحفظات۔ نومبر میں بڑی اہم تبدیلیاں، غرض یہ کہ سازشی تھیوریاں عمران خان کے آٹھ ماہ کے اقتدار کے بعد ہی عروج پر۔

اس سازشی شہر میں سازشی تھیوریوں پر کان دھرو تو لگتا ہے کہ الٹی گنتی شروع اور اگر ان سنی کردو تو لوگ آپ کو صحافی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ چلیں اسی سیاسی دیگ میں جھانگتے ہیں اور اصل بوٹیاں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقی لوگوں نے عمران خان اور پل کا کردار ادا کرنے والے کرداروں کو واضح کیا کہ آپ کے وسیم اکرم پلس یعنی بزدار اصل میں مائنس میں جارہے ہیں۔ ان کا دفاع کرنا مشکل ہے، خان صاحب کا ماننا ہے کہ وہ سچے اور سیدھے آدمی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

تین متبادل نام بھی دیے گئے ہیں۔ راجہ بشارت، چوہدری سرور کے نام تو مجھے یاد ہیں تیسرا نام حافظہ محفوظ نہ کرسکا۔ فی الوقت بزدار کی تبدیلی موخر کردی گئی ہے، غالباً جون کی باتیں ہورہی ہیں۔ چوہدری برادران آستینیں اوپر کیے تیار ہیں، ویسے تو شریف خاندان کے سخت دشمن، لیکن ن لیگی ذرائع کا ماننا ہے کہ جب پنجاب میں تبدیلی کا موسم رنگ بکھیرنے لگے گا تو ان کے ایم پی ایز بھی چوہدری برادران کی طرف جاسکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا چوہدری سرور کے ساتھ بیٹھنا، جہانگیر ترین پر تیراندازی کرنا، قریشی صاحب جیسے جہاندیدہ اور اقتدار کے ساتھ رہنے والے سیاستدان نے سوچ سمجھ کر ہی تیر چلائے ہوں گے۔

خود بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے خواہشمند ہیں اور اب بھی صوبائی اسمبلی کی خالی سیٹ پر لڑنا چاہتے ہیں۔

پنجاب میں ایک سیاسی بیٹھک میں جانا ہوا، لگا کہ یہ دوسرا ”انشا اللہ چیف منسٹر“ کالیبل اپنے ماتھے پر لگائے گھومتا نظرآیا۔ شریف برادران کو ریلیف پر ریلیف فی الوقت ریلیف ہی سمجھا جائے۔ نواز شریف، مریم خاموش، ن لیگ کی باگ ڈور شہبازشریف کے ہاتھوں میں دیکھے جانے کی خواہش ہے۔ آزمائشی لیبارٹری میں جانچا جارہا ہے، بظاہر یہ ڈیل نہیں، ریلیف کا تسلسل نظر آتاہے۔ اصل میں یہی ریلیف عمران خان اور ان کے رفقا کے لئے پریشان کن ہے، اور اسی وجہ سے شریف خاندان، زرداری، بلاول کے احتساب پر حکومت کی مہم جوئی عروج پرہے۔ بلاول جن کو اہم حلقوں میں ایک ”پسندیدہ لڑکے“ کے طور پر جانا جاتا تھا انہیں حلقوں یعنی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بلاول کا حالیہ جارحانہ انداز فکر انگیز ہے۔

زرداری اور فریال تالپور پر تیکھے تیور بددستور جاری ہیں، ”ناقابل قبول“ کا پیغام ہے۔ زرداری کے لئے گرفتاری کے کنویں کی گہرائی بڑھتی جارہی ہے، اور اس سے راہ فرار کے لئے زرداری کسی کرشماتی ڈیل کی تلاش میں ہیں، جوفی الوقت کسی صحرا میں پانی کی تلاش سے کم نہیں۔

تاہم عمران خان کو کچھ سینئرساتھیوں نے مشورہ دیا کہ زرداری گزشتہ انیس برس سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل، ڈھیل کا گیم کھیل رہے ہیں، آپ پورا دباؤ جاری رکھیں، آنکھ جھپکی نہیں اور زرداری صاحب کی ڈیل ہوئی نہیں۔
یہ سیاسی سانپ سیڑھی کھیل، اقتدار کا کھیل، محلاتی سازشوں کا کھیل، نہ ختم ہونے والا سازشی کھیل۔

اویس توحید
معروف صحافی، لکھاری ہیں
رابطے کے لئے
owaistohid@gmail.com
@OwaisTohid ٹوئٹر:

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid