مشال خان کا قاتل کون؟


زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم

بجھ جاؤنگا مگر صبح تو کرجاونگا

آج مشال کے ریاستی قتل کو دو سال پورے ہو چکے۔ لفظ ریاستی قتل لکھنا کئیوں کو بے جا محسوس ہوگا، لیکن میرے کہنے کا مقصد یہ ہے۔ کہ مشال کے قتل میں ریاست بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ملوث تھی۔ وہی ریاست، جس نے آسیہ مسیح کو ایک مخصوص طبقے کی ناجائز فرمائش پر عرصہ دراز تک قید و بند میں رکھا۔ وہی ریاست، جس نے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو پروٹوکول دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہی ریاست! جس میں قانون کی عملداری مذہبی اور فرقہ واریت پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

ریاست پاکستان میں توہین مذہب و رسالت کے نام مشال کا قتل پہلا قتل نہیں تھا۔ مشال تو تب قتل ہوا تھا جب 1949 میں قرارداد مقاصد کے نام سے ریاست کو ایک بند گلی میں دھکیلنے کی راہ دکھائی گئی۔ مشال تو تب قتل کر دیا گیا تھا۔ جب قرارداد مقاصد کے نام سے ملک میں آباد مسلمانوں کے علاؤہ دیگر مذاہب سے وابستہ لوگوں کو سیکولرازم کی تابعیت کی بہ جائے اسلام کی رو سے ڈیل کیا گیا۔ ان کی مذہبی و سماجی آزادی کو کالے پانی کی کال کھوٹڑی کی نذر کر دیا گیا۔ ان سے ان کی پاکستان کے شہری کی شناخت چھین کر ان کو مذہب کا چونا و رنگ چڑھا دیا گیا۔ شہری کی حیثیت سے وہ وزیراعظم اور صدر تک بن سکتے ہیں لیکن قرارداد مقاصد کی رو سے انہیں چپڑاسی اور صفائی کرنے پر مامور کر دیا گیا۔

مشال تو تب قتل کر دیا گیا تھا، جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں سے شہری کا حق چھین کر انہیں گاؤں گاؤں اور ہر گلی کوچے میں بھگا بھگا کر مارا گیا۔ حتی کہ یہ آگ اس دور میں ژوب جیسے پہاڑی علاقے میں پہنچی اور ژوب میں بھی ایک قادیانی کو قتل کر دیا گیا۔ ضیاء الحق مشال کا قاتل ہے۔ جس نے مذہبی شدت پسندی کو اپنے دور میں فروغ دیا۔ جس نے ہمارے بچوں کو ب سے بارود اور گ سے گولی کے حروف تہجی پڑھا کر ازبر کرا دیے۔ جس نے امن و آشتی کی دھرتی پشتون وطن کو دہشتگردی کی آگ میں جھونک دیا۔ جس نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر لاکھوں افغان مشالوں کو امریکی سامراج کے کہنے پر مار دیا۔

مشال کے قاتل، وہ نوجوان ہرگز نہیں تھے۔ جنہوں نے اینٹوں اور سیمنٹ کے بلاکس سے مشال کے سر پر وار کیے۔ میرے نزدیک پاکستانی نصاب مشال کا قاتل ہے۔ جس نے مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی بجائے مذہبی منافرت کو بڑھوتری دی۔ جس نے بھائی چارے کو فروغ دینے کی بہ جائے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا ہے۔ پاکستانی نصاب نے طالبعلموں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے ساتھ ساتھ جلاد بھی بنا ڈالا ہے۔ جو جب چاہیں، مذہب کے نام پر کسی کا بھی قتل کر سکتے ہیں۔ جو جب چاہیں، نصاب میں سیکھے ہوئے جھوٹ موٹ کی ریاستی پالیسی کو خودکش جیکٹس میں بھر کر کسی بھی چوک پر خود اور دوسروں کی تباہی کا سامان کر سکتے ہیں۔

مشال نے مر کر کئیوں میں مذہبی منافرت اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف روح پھونک دی ہے۔ اب ہر نوجوان مشال بن کر سوچنے لگا ہے۔ جس سوچ سے مذہب کے ٹھیکیدار منع کرتے تھے۔ وہی سوچ، سوچ کر مذہبی ریاست پاکستان کی بوسیدہ اور تعفن زدہ عمارت پر آزاد خیالی، مساوات، خوشحالی، زبان و کلچر کے تحفظ، ہر قوم کے ساحل اور وسائل پر ان کے اختیار کا نعرہ لکھنے والے سامنے آئے ہیں۔ جو انسانیت کی بات کرتے ہیں۔ جو مرنے اور مارنے کی بجائے زندگی، زندگی اور صرف زندگی کا ورد کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).