قتل سے منسوب گاؤں اور اپنے دور کی مہنگی شادی!


اٹھارویں صدی کے آخری دہائیوں کی بات ہے۔ موجودہ راجستھان اور گجرات کے چند علاقوں کو لٹیروں اور ڈاکوؤں نے اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ نواحی علاقوں میں واردات نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ دور کسی علاقے سے اپنا ہدف منتخب کیا کرتے تھے۔

اس زمانی میں وہاں کیش رقم اور قیمتی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کا کلچر نہیں تھا۔ مذکورہ علاقوں اور اطراف میں کسی کی امیری اور مالداری کا پیمانہ مویشیوں کی تعداد پر بھی منحصر ہوتا تھا۔ چنانچہ مویشی ہتھیانے کے واقعات بھی زیادہ ہوتے تھے۔

اسی زمانے میں مذکورہ لٹیروں نے صحرائے تھر میں مویشیوں پر ڈاکے ڈالنے شروع کر دیے۔ ہتھیار بند لٹیرے گھڑ سوار بن کر آتے اور لوگوں سے مویشی چھین کر اپنے اپنے علاقوں کو چلے جاتے تھے۔ یکے بعد دیگرے ان وارداتوں نے صحرا میں خوف و حراس کی فضا پیدا کر رکھی تھی۔

ان لٹیروں نے ایک مرتبہ کھیتلاری نامی بستی کے قریب واردات کی اور مویشی لے کر نو دو گیارہ ہونے لگے۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم کے پڑ دادا ارباب تاج محمد نے گرد نواح کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور مسلح ہو کر لٹیروں کا تعاقب کیا۔ اسلام کوٹ سے تھوڑا سا آگے وہ لٹیروں کے نزدیک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر لٹیروں میں سے ایک نے ایک ٹیلے کو مورچہ بنا دیا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ جوان مردی سے مقابلہ کرنے کے باوجود فائرنگ میں ارباب صاحب شہید ہوگئے۔ مرحوم کے ساتھی بھاگ کر صحرائی ٹیلوں میں گم ہوگئے۔

لٹیروں میں سے ایک نے ارباب صاحب جیسے بہادر انسان کی لاش کو ویرانیوں میں چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا اور لاش کو اونٹ کی پیٹھ پر لاد کر ورثاء کے سپرد کرنے نکل پڑے۔ جس طرح ایک ڈاکو نے اپنی کشادہ دلی اور انوکھی اخلاقیات پر مشتمل رسکی عمل سے دنیا کو سرپرائیز دیا، اسی طرح مقتول کے ورثاء نے بھی بردباری اور عظمت کا ثبوت دے کر قاتل کو آنکھوں کے سامنے پاکر بھی خون معاف کر دیا۔ اس واقعے کو تاریخ نے کچھ اس طرح محفوظ کر لیا کہ جس مقام پر یہ قتل ہوا تھا اس بستی کا نام ”مارو“ ہوگیا۔ مارو کی لفظی معنی خون یا قتل ہے۔

مذکورہ گاؤں میں اٹھارہویں صدی کے اوائل برسوں میں محمد صابوانی نامی ایک ایسا سخی انسان بھی موجود تھا جو کہ سندھ سے بیل خرید کر گجرات کے کچھ والے علاقے میں فروخت کیا کرتا تھا۔ گھر پر ہوتا تو چوپال پر مہمانوں کا ہجوم اکٹھا ہوتا تھا اور جب مسافری میں ہوتا تو بھی قافلے کی شکل میں چلتا تھا۔ اشیاء خورد نوش اور برتن بھی اونٹوں اور گھوڑوں پر لدے ہوتے تھے۔ اس سخی مرد نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب کا اہتمام کیا۔ مہمانوں کے لیے جو تنبو بنایا گیا تھا، وہ میلوں پر محیط تھا۔ مہمانوں کے گھوڑے باندھنے کی جگہ کا احاطہ تو اس سے بھی زیادہ اراضی پر پھیلا ہوا تھا۔ اور ان گھوڑوں کو کھلانے کے لیے مخصوص باجرے کا ڈھیر بھی فلک بوس تھا۔

اس زمانے کے مہنگے ترین کھانے مہمانوں کو پیش کیے گئے۔ مہتمم کے گھر سے لے کر مہمان خانے تک لکڑی کی پائیپ لائین بچھائی گئی تھی۔ جس میں بہہ کر آنے والا اصلی گھی کھانے پکانے میں استعال ہوا تھا۔ اس زمانے میں مٹی کے برتن زیر استعمال ہوتے تھے۔ لہاذا عام اعلان تھا کہ کوئی بھی چاہے تو اپنے گھر والوں کے لیے ان برتنوں میں کھانا بھر کر لے جا سکتا ہے۔ چنانچہ غریب عوام نے آس پاس کی بستیوں میں اپنے گھروں میں موجود خواتیں اور بچوں تک لذیذ کھانا پہنچایا۔ چالیس کلومیٹر دور گاؤں میں موجود دلہن کو لینے جب دولہے کی بارات نکلی تو راستے کے کنارے پر موجود ایک ہزار سے زائد درختوں میں سے ہر کسی درخت کی ایک شاخ کو دوپٹے سے ڈھانپ دیا گیا۔ تاکہ کوئی راہگیر گزرے تو یہ قیمتی کپڑا اپنے گھر کی عورت کے لیے لے جائے۔

اس زمانے میں مواصلات کا نظام نہ ہونے کے برابر تھا، چنانچہ تقریب کی دعوتیں زبانی دی جاتی تھیں۔ ایسے کاموں کے لیے چند برادریاں مخصوص تھیں۔ جنہیں منگنہار، منگتے اور فقیر وغیرہ بھی کہتے تھے۔ جوکہ گانے اور ڈھول بجانے سمیت داستان گوئی وغیرہ کی مہارت بھی رکھتے تھے۔ مذکورہ شادی تقریب کی دعوت کے لیے سات ماہ قبل ہی ایک ماہر منگتے کی خدمات حاصل کی گئیں، جسے چاندی اور سونے سے آراستہ قیمتی سجاوٹ سے مزین گھوڑا دیا گیا اور کہا گیا کہ سات ماہ کے عرصے میں شادی کی دعوت دینے کا کام مکمل کرنا ہوگا اور اس کے بعد یہ گھوڑا سجاوٹی اشیاء سمیت آپ کا ہوگا۔

اس شادی تقریب کی ایک اور انوکھی بات یہ تھی کہ دوران تقریب دور سے فائرنگ کی آواز سنی گئی تو حاضرین میں خوف و ہراس پھیل گیا، کیونکہ اس زمانے میں بندوق لاکھوں میں کسی ایک کے پاس ہوتی تھی مگر مہتمم محمد صابوانی کے چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ نے آسپاس موجود لوگوں کو ہکا بکا کر دیا۔ محمد نے فائرنگ کی جانب بڑھتے ہوئے کہا: ”یہ میرا بدترین مخالف ہے، جسے میں نے ہمیشہ شکستوں سے دوچار کیا ہے مگر آج اس نے مجھے اخلاقی طور پر ہرا دیا ہے۔ کیونکہ میں نے اسے شادی تقریب کی دعوت نہیں دی مگر یہ بغیر دعوت ہی چلا آ رہا ہے۔ “

مہتمم نے خود جاکر دشمن کے گھوڑے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں تھمائی اور اعلی اخلاقیات اور بینظیر میزبانی کا نمونہ پیش کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).