ہزارہ برادری کاآخر جرم کیا ہے


کوئٹہ میں ایک بار پھر بے گناشہریوں کو خون میں نہلایا گیا۔ شہید ہونے والوںمیں سے اکثر کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔ٹی وی سکرین پر بکھری ہوئی نعشیں، اجڑی ، زخمی عورتوں اور بچوں کو دیکھ کر کون ہے جس کے آنسونہ ٹپکے ہوں۔

دل دکھ اور غم سے بھرآیا نہ ہو۔مظلوم اور مجبور ہزارہ گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردوں کے ہاتھوں بری طرح کچلے اور مسلے جارہے ہیں ۔خوف اور دہشت سایہ کی طرح ان کا تعاقب کرتاہے۔ریاست انہیں طفل تسلیاں دیتی ہے ۔ روایتی بیانات جاری کرتی ہے۔ اور پھر چار سو قبرستان کی سی خاموشی چھا جاتی ہے۔

افسوس!اس مرتبہ ملک گیر سطح پر ہمدردی کی کوئی قابل ذکر لہر اٹھی نہ شہرشہر سوگ منایا گیا ۔ دکھ اور غم کی جس کیفیت سے گزشتہ ماہ نیوزی لینڈ گزرا اس کا عشرے عشیر بھی اسلام آباد میں محسوس نہ کیا گیا۔ ایسا لگتاہے کہ ہمارے دل پتھر اور دماغ مفلوج ہوچکے ہیں۔

نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا رڈرن نے مسجد پر دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والوں کے ساتھ اظہار ہمدردی اور دہشت گردوں کے خلاف بے لچک موقف اختیار کرکے جس طرح انسانی رویوں کو بدلا اورپوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جاری نفرت کے آگے بندھ باندھا اس کی بہت تحسین کی گئی لیکن ہم نے اس سے سیکھا کچھ نہیں۔

غالباًہمارااجتماعی ضمیر اس وقت تک جھنجھوڑ ا ہی نہیں جاسکتا جب تک زخم یا چوٹ براہ راست ہم پر نہ پڑے یا دکھ اور تکلیف کا مزہ خود نہ چکھ لیں۔ جناب اکرم سہیل‘ ایک حساس شاعر اور ادیب ہیں۔ ہزارہ برادری پر گزرنے والی قیامت اور اس پر عمومی خاموشی پر دکھ اور کرب کا ان سے اظہار کیا تو انہوں نے تھکے ہوئے اور اداس لہجے میں کہا ؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا .

غلام عباس کا مختصر افسانہ دھنک پڑھنے کا مشورہ دیتے ہوئے اکرم سہیل نے بتایاکہ اس بے مثل ادیب نے عشروں پہلے خبردار کیاتھا کہ حکمرانوں کی پیدا کردہ عدم مساوات ، معاشی تفاوت، تعلیم اورروزگار کے مواقعوں کو مخصوص طبقے تک محدود رکھنے کے نتیجے میں ملائیت سماج کے دل ودماغ پر غلبہ پاجائے گی ۔

رفتہ رفتہ وہ شہریوں کی نظریاتی اور فکری لگامیں تھام لے گی۔لوگ ملا کی آنکھ سے دنیا کو دیکھیں گے۔ ان کے کان وہ ہی سنیں گے جو وہ سنانا چاہے گا۔ اسی کے دماغ سے حالات کا تجزیہ کریں گے۔کائیاں سیاستدان اور حکمران اپنے گروہی مقاصد کے لیے مذہب کا بے محابا استعمال کرنا شروع ہوجائیں گے ۔

اس طرح پیار ومحبت کی لڑی میں پروئے معاشرے کا شیرازہ بکھیرجائے گا۔ قدرت نے ادیبوں اور شاعروں کے تخیل کو ایسی قوت پرواز بخشی کہ وہ سات پردوں کے پیچھے چھپی حقیقتوں کا سراغ پالیتے ہیں۔ دھائیوں بعد برپا ہونے والے واقعات، حادثات اور رجحانات کو ایسے بیان کرتے ہیں جیسے گزرے کل کی بات ہو۔

غلام عباس نے ساٹھ کی دہائی میںپاکستان میں جاری سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے پس منظر میں مستقبل کی منظر کشی افسانے ـکے پیرائے میں بیان کرکے حیران کردیا ۔ عشروں پہلے انہوں نے لکھا کہ زور خطابت سے مخالف سیاسی اورمذہبی دھڑوں اور شخصیات پر کفر کے فتویٰ ہی نہیں انہیں یہودی ایجنٹ بھی قراردیاجانے والا ہے۔

وہ وقت بھی دور نہیں کہ معصوم اور بے گناہ افراد کا قتل جائز قرارپائے گا۔ اس کے حق میں منبر ومحراب سے فتویٰ جاری کیے جائیں گے۔ کتابیں رقم ہوں گی۔ مساجداور مدارس میں ان موضوعات پر ہفتوں تک بحث ومباحثہ ہوگا کہ دین کی صحیح تعبیر کون کرتاہے اور کسے دیس نکلا سنایاجاناچاہیے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ایک طبقہ ان گروہوں کی پشت پناہی کرے گا۔

انہیں اپنا ’’اثاثہ‘‘قراردے گا۔ان کی خدمات سے استفادہ بھی کرے گا۔حتٰی کہ الیکشن ان کی مدد سے جیتے جائیں گے۔ رفتہ رفتہ وہ اس قدر طاقتور ہوجائیں گے کہ ریاست ان سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت نہ کر پائے گی۔گزشتہ بیس برسوں میں یہ سب کچھ ہوتے ہم نے دیکھا ہی نہیں بلکہ بھگتا۔اللہ کا شکر ہے کہ ریاستی ادارو ں نے دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔

بے پناہ قربانیوں اور جدوجہد کے بعد دہشت گردوں کی کمین گائیں تباہ کی گئیں۔ ان کے حامیوں کے لیے یہ سرزمین تنگ ہوتی گئی۔ میڈیا میں ان کی حمایت کرنے والا اب اکا دکا ہی رہ گیا ہے اور لوگ انہیں سنجیدگی سے لیتے ہیں اور نہ ساتھی۔ افسوس ا س با ت کا ہے کہ اتنی ساری قربانیوں او ر تلخ تجربات کے باوجود کوئی حادثہ ہوتاہے یا فرقہ ورانہ تشددمیں لوگ مارے جاتے ہیں تو ہم سب کو چپ سی لگ جاتی ہے۔

نیوزی لینڈ میں مسجد پر ہونے والے حملے کے بعد قنوطیت پسندوں کے ایک گروہ نے یہ بحث شروع کردی تھی کہ یہ مسجد کس طبقے کی تھی؟ شکر ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی پرجوش اور ولولہ انگیز شخصیت نے ماحول ہی بدل دیا۔ ہزارہ کے لاشے اٹھتے ہیں تو سوگ کی کیفیت طاری کیوں نہیں ہوتی؟

ہمارے دماغوں میں کون سا بھس بھرا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے لیے بلک بلک کر روتے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوںکیلئے بھی ٹرپ اٹھتے ہیں لیکن اکثر اوقات اپنے ملک میں مخالف فرقے یا دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے مارے جانے پر ہم منافقانہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔اس طرزفکر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ مظلوموں میں تفریق نہیں کی جاتی۔ ظالم اپنا ہو یا غیر اس کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔

مظلوم پاکستانی ہو یا سات سمندر پار کا باسی ۔ دل اس کیلئے تڑپنا چاہیے اور اگر نہیں تڑپتا تو پھر ہمیں اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنے دل اور وسائل کے دروازے مسجد میں فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والوں کے لیے کھول کر یہ سبق دیا کہ مظلوموں کے ساتھ ہمدردی رنگ ، نسل، فرقہ یا مذہب دیکھ کر نہیں کی جاتی۔

آدم کے بیٹے اور بیٹیاں جہاں بھی ظلم اور تشدد کا شکار ہوں ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہوجانا چاہیے۔ مظلوموں کا ساتھ دینا پیغمبروںکا شیوا ہے اور حضرت محمد ﷺ کے اسوہ حسنہ نے یہ درس دیا ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکیں۔ہزارہ برادری ہماری توجہ اور محبت کی مستحق ہے۔ ان کی داد رسی کے لیے ریاست ہی نہیں شہریوں کو سرگرم ہوناچاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو ایک ایک شہید کے اہل خانہ کے پاس جاکر ان کے آنسو پونچھنے چاہیں۔ انہیں سینے سے لگانا جانا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood