اپنی بیٹی کو لات مارنے پر معافی مانگی پڑی: ’یہ گھریلو تشدد کا معاملہ نہیں‘


چین میں اپنی بیٹی کو لات مارنے والی ایک ماں کو سوشل میڈیا پر اس واقعہ کی ویڈیو وائرل ہونے پر لوگوں کی جانب سے غصے کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اس کو معافی مانگنی پڑی۔

بچی کو لات مارنے کی یہ ویڈیو دو کروڑ 20 لاکھ لوگوں نے دیکھی اور بہت سے لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا۔

ہنگ زو شہر میں وومن فیڈریشن کے ایک وکیل کا کہنا تھا کہ یہ گھریلو تشدد کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیے

والدین بچوں پر تشدد کیسے کرسکتے ہیں؟

چین کے آئس بوائے کی زندگی ایک برس میں بدل گئی

استحصال کی کہانیاں، کم سن ملازماؤں پر تشدد

بعد میں ایک کمپنی نے بتایا کہ یہ ایک کلودنگ برانڈ کی مشہور چائلڈ ماڈل نو نو تھی جس کے ساتھ یہ کمپنی کام کرتی ہے۔

نو نو کی ماں نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ یہ گھریلو تشدد کا معاملہ نہیں ہے۔

یہ واضح نہیں کہ یہ ویڈیو کس نے اپ لوڈ کی تھی جو آٹھ اپریل کو بنائی گئی تھی لیکن اس کے بعد لوگوں نے اسے خوب شیئر کیا۔

نو نو کی ماں کو نہ صرف نونو کو لات مارنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس کے ذریعے پیسہ بنانے کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ کمنٹ کو کہ ‘ایک تو آپ اپنے بچے سے پیسہ بنا رہے ہو اور پھر اسے لات بھی مار رہے ہو’ دو ہزار لوگوں نے لائک کیا۔

خاتون

ایک اور صارف نے لکھا ’مجھے آپکی بیٹی پر ترس آ رہا ہے۔ اس عمر میں اسے بے فکر ہونا چاہیے لیکن وہ آپ کے لیے پیسہ کماتی ہے وہ کوئی پیسہ بنانے کی مشین نہیں ہے۔‘

جواب میں نو نو کی ماں نے چائنا نیوز ویکلی سے کہا کہ میرے شوہر ملازمت کرتے ہیں اور ہم اپنے خرچے کے لیے نو نو کی آمدنی پر انحصار نہیں کرتے۔

نو نو کی ماں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر لکھا ‘میری اس ویڈیو کا غلط مطلب نکالا گیا نونو اور میں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور ہم نو نو کی بہت اچھی دیکھ بھال کرتے ہیں’۔

چائنا نیوز ویکلی کا کہنا ہے کہ نو نو کئی مقامی برینڈ کے لیے کام کرتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ نو نو کی ماں کی معافی پر بھی بحث کر رہے ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ماں اپنی بچی کو ڈسپلِن کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

چین میں اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ آیا والدین کو اپنے بچوں کو ڈسپلِن کرنے کے لیے سختی برتنی چاہیے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp