چل وے منا ہن پنڈی چلیے


راولپنڈی سے شناسائی تب ہوئی تھی جب مجھے پنڈی والوں نے ”حضرت سلیمان کی جیل“ بطورکپتان قید ہونے بھیجا تھا۔ گلگت کی پرواز ہفتہ بھر نہ جاتی تومیرے جیسے ”ہارڈ ایریا“ میں تعینات افسر ٹرانزٹ افسرز میس میں پڑے رہتے۔ میں صدر کے علاقے میں کتابوں کی معروف دکانوں سے بہترین انگریزی کتابیں خریدتا رہتا یا پھر گھومنے کو اسلام آباد کے روز اینڈ جیسمین گارڈن چلا جاتا۔

اے ایم سی سنٹر میں ٹریننگ کے دوران سنٹر میں تعینات کیپٹن فرقان شیخ سے دوستی ہوئی جو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ہماری دوستی قائم و دائم ہے۔ درہ برزل کے اس پار کیپٹن طارق ہمایوں درانی کے ساتھ پہاڑوں کی بلندیاں ناپیں۔ ان سے ہوئی دوستی باوجود فراق کے کئی وقفوں کے برقرار رہی۔

سوچا راولپنڈی اسلام آباد میں بھی دوستوں سے مل لیا جائے۔ عزیزی زاہد کاظمی نے جنہوں نے ہمت کی اور میری خودنوشت کے دو حصے باہم کر اشاعت کے لیے دیے ہوئے تھے، گرمی سے متعلق میری دہائی سن کے مجھے گلگت ہنزہ لے جانے کی پیشکش پہلے ہی کی ہوئی تھی۔ اس سفر پر روانہ ہونے کا پروگرام 9 اپریل کا تھا مگر انگلستان سے ہمارے دوست محمد حسن معراج جنہوں نے میری خودنوشت کا تمہیدی مضمون بھی تحریر کیا ہے، اپنا لکھا ڈرامہ ”سازش 51“ سٹیج کرنے انگلستان سے فیصل آباد تشریف لا رہے تھے، اس لیے طے ہوا کہ 14 اپریل کے بعد ہنزہ روانہ ہوں گے۔ میں نے مناسب جانا کہ 9 اپریل کو ہی راولپنڈی پہنج جاوں۔ ارادہ تھا کہ 12 اپریل کو وہیں سے زاہد کاظمی اور میں ڈرامہ دیکھنے فیصل آباد چلے جائیں گے۔

میں نے آنے سے پہلے تین دوستوں یعنی فرقان شیخ، ڈرامہ نگار ظفر عمران اور سٹیٹ بینک کے سابق افسراعجاز شاہد کومطلع کردیا تھا۔ یہ تینوں میرے لیے دل اور گھر کے دروازے کھول کے بیٹھے ہوئے تھے۔ ظفر کہیں بحریہ ٹاون کے آخری فیز میں مقیم ہے اور اعجاز شاہد بنی گالہ کے نزدیک شہزاد ٹاون میں اور دونوں متاہل۔ مجرد زندگی بسر کرنے والا واحد شخص فرقان تھا جو رہتا بھی ڈائیوو کے ٹرمینل سے نزدیک تر پشاور روڈ پر ویسٹرج میں ہے اور لینے بھی پہنچ گیا۔

رات کو اپنے ماسکو کے دوست نور حبیب شاہ جو چار ماہ بعد ماسکو کے واپسی سفر کے ضمن میں اسلام آباد پہنچا ہوا تھا کو فون کیا تو اس نے پنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے نزدیک فوڈ سٹریٹ پہنچنے کو کہا۔ مجھے کسی ذاتی کام کے سلسلے میں حبیب کے سامنے دل کھول دینے کی شدید احتیاج تھی چنانچہ باوجود برے موسم کے فرقان کو لے جانے پر مجبور کیا۔ فوڈ سٹریٹ میں جانے کا راستہ کسی وجہ سے پولیس نے بند کیا ہوا تھا چنانچہ ہمیں دوسری جانب گاڑی کھڑی کرکے ہلکی بوندا باندی میں فوڈ سٹریٹ پہنچنا پڑا جہاں حبیب اپنے جوہر شناس دوست طارق اور چھوٹے بھائی برکت کے ساتھ بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔

میں نے اپنا دل کھول کے اس کے سامنے رکھا اس نے اتنا عرصہ بات چھپائے رہنے پر حیرت کا اظہار کیا تو آسمان پھٹ پڑا۔ دھواں دھار بارش ہونے لگی۔ کھانا کھانے کے بعد کرنل صاحب جو اگرچہ عمر میں مجھ سے پانچ برس بڑے ہیں مگر پینتیس برس کے غیر متاہل انسان کی سی پرلطف زندگی بسر کر رہے ہیں، ہمت کرکے بارش میں بھیگتے گئے اور گاڑی خیبر شنواری کے سامنے لے کر آئے۔ ہمیں گھر پہنچتے رات کا ایک بج گیا۔ کہیں دو اڑھائی بجے نیند آئی۔ مجھے جو کمرہ سونے کو دیا گیا وہ عین سڑک کی جانب ہے چنانچہ ٹریفک کے شور سے جلد آنکھ کھل گئی۔

ایک عرصہ سے ناپید درانی کو دو برس پہلے، کرنل عاصم بخشی کی مدد سے پاکستان میں ہی تلاش کر لیا گیا تھا کیونکہ اس کے لندن سے فون اور سوشل میڈیا سے یکایک غائب ہو جانے پر مجھے بے حد تشویش لاحق ہوئی تھی۔ عاصم سے پہلے کوئی فوجی افسر چاہے وہ عام تھا یا خاص یعنی کسی ایجنسی سے وابستہ، میری درخواست پر اس کا پتہ لگانے سے قاصر رہا تھا۔ درانی کو میں نے لاہور سے آدھا راستہ طے کرنے کے بعد فون کیا تھا کہ میں تمہیں ملنے پہنچ رہا ہوں۔ اچانک فون پہ اطلاع دیے جانے سے وہ بوکھلا سا گیا تھا مگر میں نے اس کی تشقی کروائی تھی کہ وہ کل صبح مجھے ملنے پہنچے۔

صبح اٹھ کر مناسب وقت پر اسے فون کیا تھا۔ وہ کچھ دیر بعد پہنچ گیا جسے لینے فرقان باہر گیا تھا۔ میں زینے پر کھڑا اس کا منتظر تھا۔ جب اس نے اپنی نئی گاڑی پارک کی تو میں خوش ہوا۔ اس کے گاڑی سے نکلنے سے پہلے میں نے اپنے بازو پھیلا دیے تھے۔ وہی دھلا دھلایا، اچھے کپڑوں میں ملبوس مسکراتا ہوا درانی البتہ آنکھوں کے نیچے جھریاں کچھ زیادہ ہو گئی تھیں اور بس۔ ہم بہت دیر تک گلے لگے رہے۔ آخر 27 برس بعد جو ملے تھے۔

قدامت پسند درانی میرے کسی لڑکی کے بارے میں کسی کمنٹ پر نالاں تھا جب کہ اس کمنٹ سے ناراحت ہونے کی کوئی بات تھی ہی نہیں۔ خیر درانی ہر طرح سے یعنی اولاد کے حال مستقبل، گھر، روزگار وغیرہ سے بہت مطمئن تھا جو میرے لیے باعث مسرت تھا مگر درانی میں دوستانہ طنطنہ کچھ ماند پڑا دکھائی دیا۔ 27 برس میں کچھ تبدیلیاں تو آ ہی جاتی ہیں۔ لندن کے نو بجے اس کا آن لائن کام شروع ہونا تھا چنانچہ وہ دو گھنٹے بیٹھ کر اور بہت سی باتیں کر اور سن کے روانہ ہو گیا تھا۔ کاموں کے سبب مزید ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ اللہ اسے خوش و خرم رکھے۔

دو برس پہلے کراچی میں فریضہ خدمت سرانجام دینے والا پرانے دوستوں کا سا نیا دوست ظفرعمران، جو اس بار لاہور میں بھی ملنے کی دو بار کوشش کرتا رہا مگر میں بوجوہ نہ مل پایا تھا، چونکہ اب راولپنڈی میں تھا اس لیے اسے فون کیا۔ اس سے بحریہ ٹاون کے دروازے پر ملنا طے ہوا، فرقان مجھے ان کے حوالے کر آئے۔ ظفر کی اہلیہ اپنی گاڑی پر بچوں کو لے کر اپنے میکے لاہور گئی ہوئی تھیں اس لیے ظفر کو اپنی ہمشیرہ کی گاڑی مانگنا پڑی تھی۔

ظفر نے پہلا کام وہی کرنا مناسب جانا جو سبھی پاکستانی میزبان کرتے ہیں یعنی کھانا کھلانا۔ چونکہ وہ اپنے شہر سے ایک عرصہ دور رہنے کے باعث اچھے ریستورانوں کے بارے میں بھول چکا ہے اس لیے اس نے اپنی کزن سے رہنمائی مانگی۔ اس کے باوجود ہم ڈیفنس میں کوئی مناسب ریستوران نہ ڈھونڈ پائے۔ بالآخر چار بجے ہم صدر میں فریسکو ریستوران میں جا بیٹھے۔ سروس ناکارہ، کھانا واجبی اور دام زیادہ۔ ہم نے سوپ، فش اینڈ چپس اور ہانڈی آرڈر کیے تھے۔ بیرا سوپ سے پہلے فش اینڈ چپس لے آیا۔ ہمیں سوپ کینسل کروانا پڑا تھا۔

میں عاصم بخشی سے دن میں بات کر چکا تھا اور وہ اگلے دن مجھے ملنے آنے کا وعدہ کر چکے تھے مگر ظفر نے تجویز دی کہ عاصم کی رہائش نزدیک ہے، اس لیے پوچھنے میں حرج نہیں۔ عاصم بخشی نے چائے پینے مدعو کر لیا۔ عاصم بخشی جیسے متبحرعالم سے گفتگو کا اپنا لطف ہے۔ خاص پر طبعیات اور کونیات سے متعلق گفتگو بہت دلچسپ رہی۔ ڈرامہ نگار، ہدایتکار اور افسانہ نویس ظفر عمران کے دلچسپی کے یہ موضوع نہیں تھے اس لیے اس نے مشاق ہدایتکار کی طرح ہم دونوں کو اپنی دلچسپی کے میدان میں کھینچ لیا تھا۔ عاصم سے ملنے کا وقت طے کرنے سے پہلے ظفر سلیم ملک سے بھی عاصم کے بعد ملنے کا وقت لے چکا تھا چنانچہ مجھے عاصم کی دلچسپ رفاقت سے جدا ہونے کی اجازت لینا پڑی۔ البتہ میں نے یہ ضرور کہا کہ اگر میں اس شہر میں رہتا تو عاصم سے ہفتے میں کم ازکم ایک بار ضرور ملتا۔

نجانے کس وجہ سے راستے ادھر ادھر سے بند تھے۔ نئے ہو چکے شہر سے ناشناسا ظفر کے لیے امتحان تھا۔ بڑی مشکل سے کئی راستے بدل کر ہم بالآخر دس بجے کے قریب سلیم ملک کے ہاں پہنچ پائے۔ سلیم ملک ”ہم سب“ کے لکھاری کے طور پر شناسا ہیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ ان کا دوسری منزل پر کرائے کا گھر جرمنی کے کسی بہتر گھر کا ہم پلہ تھا اور انہوں نے انجانے میں میری میزبانی بھی جرمنی کے انداز میں کیے جانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔

خاتون خانہ کہیں گئی ہوئی تھیں۔ جرمنی نوازی سے میرے انکار پر انہوں نے البتہ کھانا کھانے کی شدید شرط عائد کر دی۔ انہوں نے اپنے وکیل بھائی صدیق ملک کو بلا لیا جنہوں نے نزدیک ہی ایک ریستوران تجویز کیا۔ میرے میزبان پیاس باقی رکھ رکھ کے مجھے لیے ایک چھوٹے مگر اچھے ریستوران پہنچے۔ آرڈر میں نے دیا۔ کھانا بہت اچھا تھا۔ کم مقدار کھانے سے بھی ہم تینوں سیر ہو گئے۔ ظفر تو ویسے بھی کھانے اور سونے میں بخیل ہے۔ ظفر مجھے اپنے ہاں لے جانا چاہتا تھا لیکن میں نے کل اس کے ہاں قیام کا وعدہ کرکے اسے مجھے فرقان کے ہاں چھوڑ جانے پر رضامند کر لیا۔ پھر رات دو بجے سویا مگر چھ گھنٹے سو ضرور لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).