ہماری ریاست ماں جیسا کردار کیوں ادا نہیں کرتی؟


ہزارہ برادری پر ایک بار پھر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ایک مختصر عرصے کے لئے انھیں غم سہنے اور آنسو پونچھنے کا وقت دیا جاتا ہے اور جب ان کے آنسو بہنا بند ہوجاتے ہیں اور آنکھوں میں پچھلے غم کی صرف نمی رہ جاتی ہے تو ظالم انھیں ایک بار پھر خاک اور خون میں نہلاتے ہیں۔ یوں ان کی نم آلود آنکھوں میں اشک کے دریا ایک بار پھر بہنے لگتے ہیں۔

ریاست کے ٹھیکے دار اور نام نہاد عوامی نمائندے روایتی میڈیائی بیانوں کے ذریعے ان کی اشک شوئی کرنے لگتے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف ان کے خاتمے تک کارروائی جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں لیکن بیچ میں بہ ظاہر امن کے مختصر دورانئے کے بعد دہشت گرد ایک بار پھر انھیں مخصوص مذہبی عقیدے پر عمل پیرا ہونے اور نسلی و لسانی تفاوت کی وجہ سے بہیمانہ ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہزارہ برادری اپنے پیاروں کی ٹکڑوں میں بٹی لاشیں خاموشی سے سمیٹتی ہے اور احتجاجی دھرنا دے کر حکومت وقت اور ریاست کے ٹھیکے داروں سے قاتلوں کی گرفتاری اور اپنے مستقل تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے۔

ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن پاکستانی ریاست ماں جیسی نہیں ہے۔ یقیناً بہت سے ماتھوں پر شکنیں پڑ رہی ہوں گی لیکن مجھے بتایا جائے کہ 2001 ء سے 2019 ء تک شیعہ فرقے پر ہونے والے پانچ سو سے زائد حملوں میں 116 سے زائد حملے صرف ہزارہ شیعہ پر ہوئے ہیں۔ انھوں نے سیکڑوں نعشیں اٹھائی ہی نہیں بلکہ سمیٹی ہیں۔ حکومت نے اب تک کتنے قاتل گرفتار کیے ہیں اور انھیں قرار واقعی سزا دی ہے؟ کتنی دفعہ کوئی سربراہِ حکومت ان کے پاس ان کی دل جوئی کے لئے گیا ہے اور انھیں یقین دلایا ہے کہ ریاست انھیں تحفظ دے گی۔ موجودہ آرمی چیف ایک دفعہ ان کے پاس ضرور گئے تھے لیکن تحفظ کی یقین دہانیوں کے باوجود ان کی ہلاکتیں جاری ہیں۔

وطن عزیز میں حالات صرف ہزارہ برادری کے لئے ہی دگرگوں نہیں ہیں بلکہ پختون بھی گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے دہشت گردی کے شکار ہیں۔ بلوچ بھی اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر سنگین جرم کے مرتکب ہوچکے ہیں اور انھیں ماورائے عدالت قتل یا غائب کیے جانے کا سامنا ہے۔ ”پشتون تحفظ موومنٹ“ کی صورت میں جو مزاحمتی بیانیہ سامنے آ یا ہے، اس نے بھی ریاستی ٹھیکے داروں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے سیاست دانوں کی منافقت کا پول کھول دیا ہے۔

پاکستان میں بسنے والی مختلف قومیتیں اپنی مخصوص نسلی و لسانی شناخت اور مختلف مذہبی عقیدے کی وجہ سے ریاستی و غیر ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ انھیں جینے کے حق سے محروم بھی کیا جا رہا ہے اور جب وہ احتجاج کرتی ہیں اور اصل مجرموں کا نام لیتی ہیں تو انھیں غدار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ آپ جب کسی مخصوص برادری کو مسلسل بم کا نشانہ بناتے ہیں، اس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بسوں سے اتار کر ان کی مخصوص شناخت کے لئے ان کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور انھیں عام لوگوں سے الگ کرکے گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں تو کیا وہ فریاد بھی نہیں کریں گے، اپنے قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کا نام بھی نہیں لیں گے؟

آپ جب ملک کی بقا اور سٹرٹیجک ڈیپتھ کے لئے پختونوں کو استعمال کرتے ہیں، انھیں مذہبی انتہاپسندی کا راستا دکھاتے ہیں، اپنے مخصوص مقاصد کے لئے انھیں لڑاتے ہیں اور پھر ساری دہشت گردی ان کے کھاتے میں ڈالتے ہیں، انھیں بے گھر کرکے ان کی آبادیاں اور تجارتی مراکز صفحہ ہستی سے مٹاتے ہیں تو کیا وہ احتجاج نہیں کریں گے اور اصل ذمہ داروں کا نام نہیں لیں گے؟ آپ جب بلوچستان کے رہنے والوں کو پس ماندہ رکھتے ہیں، ان کے وسائل پر ان کا حق تسلیم نہیں کرتے اور طاقت کے ذریعے انھیں دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا وہ ریاست سے بغاوت نہیں کریں گے؟

یہ ملک کسی ایک قوم یا کسی خاص ریاستی ادارے کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ یہاں رہنے والی تمام قومیتوں، نسلوں اور برادریوں کا ملک ہے۔ سب کا اس میں ایک جیسا مقام اور ایک جیسی حیثیت ہے۔ جب آپ ان کا وجود ان کی مرضی کے مطابق تسلیم نہیں کرتے، ان کی نسلی و لسانی شناخت اور مخصوص مذہبی عقیدے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اسی وجہ سے انھیں حب الوطنی کے دائرے سے باہر کرتے ہیں تو کیا اس کا ردِ عمل خوش گوار ہوگا؟ ریاست کو سوچنا چاہیے اور اسے اپنی سلامتی اور بقا کے لئے فہم و فراست اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ریاست اگر ماں جیسی ہے تو پھر وہ ماں کا کردار ادا کیوں نہیں کر رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کے حالیہ خونیں واقعے نے ریاست کی ماں جیسی حیثیت کو بہت احسن طریقے سے اُجاگر کیا ہے۔ ایک غیر مسلم ریاست کی غیر مسلم وزیر اعظم اگر اپنی ریاست میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ماں جیسا کردار ادا کرسکتی ہے تو ہماری اسلامی ریاست کے مسلمان حکمران کیوں ایسا نہیں کرسکتے۔ یہی فرق ہے جو ظلم اور دہشت گردی کے شکار لوگوں کو بغاوت پر اکساتی ہے، انھیں ایسے نعرے بلند کرنے پر مجبور کرتی ہے جس سے ریاست کے ٹھیکے دار آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔

ہزار گنجی میں ہونے والے دھماکے میں ISIS کے ساتھ لشکر جھنگوی کا تعاون یہ اَمر واضح کرتا ہے کہ لشکر جھنگوی اور اس طرح کی پرتشدد دیگر مذہبی تنظیموں کا وجود ریاست پاکستان کے لئے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان تنظیموں کو بلا امتیاز بیخ و بن سے اکھاڑنا چاہیے۔ ان پر محض پابندی عائد کرنا علاج نہیں بلکہ ان کا وجود مٹانا ہی فرقہ ورانہ قتل و غارت کا صحیح حل ہے۔ جو لوگ انھیں اثاثہ قرار دیتے ہیں وہ ملک اور عوام کے حقیقی دشمن ہیں۔ اب بھی ریاست اگر ماں جیسا کردار ادا کرنے سے مزید اغماض برتے گی تو وہ دن دور نہیں جب ظلم کی چکی میں پسنے والے لوگوں کے ساتھ عام لوگ بھی ”ماں“ کے خلاف اعلانِ بغاوت پر اتر آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).