پی ٹی ایم : میرانشاہ اجتماع اورفرحت اللہ بابر کی گواہی


منظورپشتین نے جب بدقسمت پشتونوں کے تحفظ کے تحریک کا آعاز کیا تو مخالفین بھی حرکت میں آئے۔

بہتوں کو اس دبلے پتلے نوجوان اور ان کی ٹیم کے پیچھے ہندوستان کی جاسوس ایجنسی کا ہاتھ نظر آیا اور بے شمار لوگوں کو افغانستان سے اس تحریک کی ڈوریں ہلنے محسوس ہونے لگے۔ یھاں تک کہ بعض کرم فرماؤں نے اسے اسرائیلی موساد کی فنڈنگ سے نشوونما پانے والی تحریک تک ڈکلیر کردیا۔ دوسری طرف ملک بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اس تحریک کی کوریج سے مکمل بائیکاٹ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ کراچی سے نکلنے والا روزنامہ ”امت“ جیسے اخبارات کے نمائندے اور ایڈیٹرز تو الٹا اس کے جلسوں کا تمسخر اڑانے پر اتر آئے اور پیہم اس کی ہر مقبول ادا کی نفی کرتے رہے۔

ان تمام تر الزامات، اتہامات اور اوچھے ہتھکنڈے آزمانے کے باوجود یہ لوگ پشتین کو سوائے اپنی دکھی قوم کے ایک درویش نمائندے کے اور کچھ ثابت نہ کرسکے۔ نہ تو کسی کو ان کے کاروان کے ڈانڈے ہندوستانی ایجنسیوں سے ملے، نہ ہی افغانستان کی NDS سے ان کے خفیہ معاہدوں کے دستاویزات ہاتھ آئے۔ یاد رکھیے کہ اس تحریک کی معاونت پشتون جوانوں کے اس چندے سے ضرور ہوتی ہے جہاں پر آج کی طرح ہر جلسے کے بعد لوگ چندہ دینے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بیشک اس تحریک کے تانے بانے ملک کے اندر ان لوگوں سے ضرورثابت ہوئے جن کے سینے فاٹا کے دربدر آئی ڈی پیز، اپاہج اور شہداء کے درد سے معمور تھے۔

منظور پشتین اور ان کی تحریک کو ان لوگوں نے ضرور سپورٹ کیا، اور ڈنکے کی چوٹ پر سپورٹ کیا جو رحم و کرم اور انسانیت پر یقین رکھتے ہین اور ظلم، جبر اور استحصال سے بیزار ہیں۔

پشتین کون ہیں اور ان کا بیانیہ کیا ہے؟

یاد رہے کہ پشتین کا بیانیہ پیچیدگیوں سے خالی اور اشکالات سے مبرا سیدھا سادہ بیانیہ ہے۔ اس چھبیس سالہ نوجوان نے خود بندوق اٹھائی ہے نہ ہی کسی کے ہاتھ میں بندوق تھما دی ہے۔ خود ریاستی رٹ کو چیلنج کیا ہے اور نا ہی اپنے ورکرز کو یہ موقع دیا ہے۔

پشتین کا تعلق پاکستان کے اس عظیم انسانی لیبارٹری (فاٹا) سے ہے جہاں نائن الیون ڈرامے کے بعد اٹھارہ سال سے انسانی کھوپڑیوں، ناسور زخموں اور مختلف النوع کیمیکلز اور بارود کے تجربات اور مشاہدات ہوتے رہے ہیں۔ پشتین کا تعلق پاکستان کے اس خطے سے ہے جو دنیا کے دہشتگردوں اورامریکی ڈرون حملوں کا ایپی سنٹر تصور کیا جاتا تھا اورجہاں پر امریکی مفادات کی ایک خون آشام جنگ تاحال لڑی گئی۔

پشتین اس دوزخ نما وزیرستان کا ایک پاکستانی پشتون باشندہ ہے جن کی رُوداد نے ملک کے سابق وزیراعظم کو بھی رُلا دیا تھا، لیکن صد آفرین کہ انہوں نے اس کے باوجود بھی ڈاکٹراللہ نذر اور براہمداغ بگٹی بننا گوارا نہیں کیا۔

منظورپشتین اور ان کے کارواں کے شرکاء پرامن طریقے سے ایک ایسے نظام کی مانگ کے لئے اٹھے ہیں جہاں نقیب محسودوں کی زندگیوں کے فیصلے تاریک سرنگوں میں ہونے کی بجائے ملک کی معزز عدالتوں میں ہوتے ہوں۔

منظور پشتین کو غیر ملکی اداروں کا ایجنٹ قرار دینا بہت آسان ہے لیکن مشکل ہے تو اُن مہ وسال کا ادراک مشکل ہے جوشمالی وزیرستان کے میران شاہ، جنوبی وزیرستان کے وانا اور اس خطے کے دوسری ایجنسیوں کے باشندوں پر بیتے ہیں۔

پشتین کا بیانیہ چند اور فقط چند سوالات پر مشتمل بیانیہ ہے لیکن ریاست تاحال اس بیانیے کے چند سوالات کاجواب دینے سے کترا رہی ہے۔ منظور پشتون کے بیانیے کا پہلا سوال کل بھی فاٹا اور پختونحواکی ماوں کے لاپتہ جگر گوشوں سے متعلق تھا اور آج بھی وہی ہے کہ

”ٹارچرسیلز میں رکھے گئے لوگوں کو عدالتی ٹرائل کاحق دو۔

پشین کا دوسرا سوال قاتلوں کے اس ماسٹر مائنڈ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے متعلق تھا جنہیں کچھ لوگ ”بد نام زمانہ قاتل راؤ انوار“ اور کچھ لوگ ”بہادر اور لاڈلے بچے“ کے نام سے جانتے ہیں۔

پشتین اور ان کے سخت جان ساتھیوں نے آج پھر اس عہد کی تجدید کی کہ ”جب تک“ محسودوں اور ارمانوں ”کے قاتلوں سے حساب برابر نہیں کیا جاتا تب تک ان کی آوازیں کراچی سے خیبر تک گونجتی رہیں گی۔ پشتین اور ان کے ساتھی برملا کہہ رہے ہیں اور بجا کہہ رہے ہیں کہ ان کی دکھی قوم کو اس دستور کی روشنی میں جینے کاحق بھی دو اور مرنے کاحق بھی جسے ”آئین“ کہا جاتا ہے۔

پشتین اور ان کے ساتھیوں نے اب کی بار پی پی پی کے رہنما فرحت اللہ بابر کی موجودگی میں میرانشاہ میں گھائل وزیرستان کی تاریخ کا سب سے بڑے اجتماع کا اہتمام کرکے ایک مرتبہ پھر ریاست سے ماں جیسے سلوک روا رکھنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ

( زوانان مو قتل کیگی۔

کورونہ مو ورانیگی۔

دا سنگہ ازادی دہ؟ )

”ہمارے نوجوان قتل ہورہے ہیں،

ہمارے گھر مسمار ہورہے ہیں،

آخر یہ کیسی آزادی ہے؟ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).