جیسنڈا ہم شرمندہ ہیں


کرائسٹ چرچ حملے پر نیوزی لینڈ حکومت اور قوم کے ردعمل نے پوری دنیا کی سماجی، فکری اور شعوری ترویج پر مثبت اخلاقی اور تعمیری اثرات مرتب کیے۔ نیوزی لینڈ کی حکومت بالخصوص وزیراعظم جیسنڈا نے جس انداز میں سانحہ کی مذمت کی اور جس طرح لواحقین کی غمگساری کی وہ پوری دنیا کے لئے مشعل راہ ہے۔ جیسنڈا نے یہ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی کہ دوسرے مذاہب کا عزت و احترام کسی کے ایمان کے لیے خطرہ نہیں ہوتا۔ پوری دنیا اور ہمارے ملک کے ہر طبقے نے جیسنڈا کے ردعمل کو سراہا۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کو خوب پذیرائی ملی۔ وطن عزیز کے قلمکاروں نے بھی اپنی اپنی قوت تحریر کو بروئے کار لاتے ہوئے عقیدتوں کے پھول نچھاور کیے۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی جیسنڈا کے رد عمل نے کچھ مشکلات بھی پیدا کیں۔ ایک مخصوص مکتبہ فکر کے لوگوں کے منہ پر طمانچہ دے مارا۔ پوری امت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ہماری قوم کے سامنے ایک بہت بڑا امتحان کھڑا کر دیا۔ بھلا اب آپ ہی بتائیں؟ نیوزی لینڈ جیسے ممالک جہاں ایسے واقعات شاذو نادر ہی رونما ہوتے ہوں اور اس پہ بھی پوری قوم یکساں ردعمل کا اظہار کرے وہاں ایسے واقعات پر اس طرح کا ردعمل کوئی غیر معمولی عمل نہیں۔

جیسنڈا کے نزدیک کرائسٹ چرچ کا واقعہ ایک خونریزی کی بدترین مثال ہوسکتا ہے یا انسانیت کا قتل تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے؟ اسے کیا معلوم جسے وہ خونریزی سمجھ بیٹھی ہے ہمارے ہاں وہ ایک کھیل ہے۔ خون کی ہولی ہے جو ہفتہ وار کھیلی جاتی ہے لہذا ہمارا جیسنڈا یا نیوزی لینڈ کے لوگوں سے موازنہ کرنا نا انصافی ہے۔

ہاں جتنا ہو سکتا تھا ہم نے جیسنڈا کے ردعمل کو سراہا، جلی حروف میں اس کی تعریف کی، اونچی سروں میں اس کی مدح سرائی کی، اسے عزت و تحریم کے ان گنت سابقوں اور لاحقوں سے نوازا۔ بس شاید یہی سب کچھ ہمارے پاس اپنے زندہ ہونے کا ثبوت تھا۔

اب ہم سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ ہم بھی ہزارہ برادری پہ ہونے والے حملہ کی مذمت اسی جوش و جذبے اور ولولے سے کریں اور اس سانحہ کے پیچھے کارفرما عناصر کو بے نقاب کریں اور انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ کس قدر معصوم خواہش ہے! بھائی! شاید آپ نہیں جانتے کہ یہ مسئلہ کس قدر پیچیدہ ہے؟ ایک تو دھماکہ میں میں ہلاک ہونے والے محض انسان نہیں تھے بلکہ ان کی پشت پر ایک مخصوص مذہبی فرقے کی مہر ثبت تھی اس لیے ان کے قتل کو انسانیت کا قتل کیسے گردانا جا سکتا کیونکہ ہم کسی انسان کی موت کا ماتم تب ہی مناتے جب تک اس کا جنسی، سیاسی، لسانی اور مذہبی ڈی این اے نہ کروالیا جائے۔

اور نہ ہی ایسا ہے کہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہزارہ برادری کے لوگوں کا قتل کیا جارہا ہے کہ ہم اسے ہزارہ برادری کی نسل کشی تصور کریں۔ اور تو اور ایک مخصوص مکتبہ فکر کے نزدیک مرنے والے لوگ کافر تھے اور کفار کی ہلاکتوں پہ غم و غصہ کا اظہار کیوں کر کیا جائے؟ انھیں جہنم رسید کرنا تو ایمان کا بنیادی جزو ہے۔ اب ہم نے انسانیت کا علم بلند کرتے کرتے اپنا ایمان زائل کرکے اپنی عاقبت تو تباہ نہیں کرنی نا۔

جبکہ نیوزی لینڈ کے سانحہ میں شہید ہونے والے لوگ تو مسلمان تھے اور تادم مرگ ان کے کافر ہونے کا کوئی فتوی بھی منظر عام پہ نہ آیا تھا وہ اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے خانہ خدا میں شہید کر دیے گئے اس لیے جیسنڈا اور نیوزی لینڈ کے لوگوں نے ایسا ردعمل کر کے اپنی مغفرت کی راہ ہموار کی ہے کوئی انسانیت پہ احسان نہیں کیا۔ شاید اسی لیے ایک اہل ایمان نے جیسنڈا کو اسلام قبول کرنے کی دعوت عام بھی دی کہ اسے دوزخ کے بھڑکتے ہوے شعلوں سے بچایا جا سکے لیکن شاید اس کے نصیب میں جنت کی پرکیف فضاوں سے محرومی ہی لکھی تھی۔

اب براہ کرم ہلاکتوں اور شہادتوں میں موجود تفریق کو تو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور یہ بات ہمارے ایمان کی پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم نے اور ہمارے اہل فکرو دانش نے ہزارہ مقتولین پر اتنی بھی بات نہیں کی جتنی ہم نے جیسنڈا کے ردعمل پہ مدح سرائی کی تھی کیونکہ ہمیں ہمارا ایمان اپنی جان بلکہ کسی کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔

آپ کچھ بھی کہہ لیں لیکن ہمیں اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ ہزارہ کمیونٹی کے لامتناہی قتل عام پر ہماری سرد مہری اس بات کی غمازی کہ ہم دولے شاہ کے وہ چوہے ہیں جن کے ذہنوں پر مخصوص بیانیے کے آہنی ٹوپیاں پہنا کر انھیں پھیلنے، پھولنے اور سوچنے جیسی نعمت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ یاد رہے کہ دولے شاہ کے چوہے صرف دست خیرات پیش کرتے ہیں، دست سوال دراز نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).