عالمی سرمائے کا شکنجہ اور غریب ممالک


کارپوریٹ عالمگیریت اس قدر مہیب ہے کہ ہما شما کا تو ذکر ہی کیا اس نے بڑے بڑے لیڈروں کو پسپائی پر مجبور کیا۔ وہ سیاست دان جو ملکی سطح پر چھوٹے چھوٹے سمجھوتوں پر مجبور ہو، اس سے یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ طاقت ور عالمی مالیاتی ادارے( آئی ایم ایف) کی اعانت کے بغیر معیشت چلا سکے گا۔ اس لیے اپوزیشن میں رہ کر اس طرح کی باتیں آسان ہیں کہ ’خود کشی کرلوں گا، آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لوں گا ‘ لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد ان پر عمل ممکن نہیں ہوتا۔

ممتاز مصنفہ، دانش ور اور ایکٹیوسٹ ارون دھتی رائے کی کتاب ’’ ایک عام آدمی کا تصور سلطنت ‘‘ ( ترجمہ، شفیق الرحمان میاں) میں ان سیاسی رہنمائوں کا حوالہ موجود ہے، جن کی اپوزیشن میں بڑی قامت تھی لیکن اقتدار نے انھیں بونا بنا دیا، اس سے ان حکمرانوں کی حیثیت کا اندازہ کرلیں جو اپوزیشن میں ہی پست قامت تھے۔ ارون دھتی رائے نے برازیل کے صدر لولا کی مثال دی ہے جو 2002 میں ورلڈ سوشل فورم کے ہیرو تھے لیکن حکومت میں آئے تو آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرتے نظر آئے۔

مس رائے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا سے بھی رو رعایت نہیں کرتیں اور بتاتی ہیں کہ نِج کاری اور تشکیلی تبدیلیوں کے جس بڑے پروگرام کا آغاز انھوں نے کیا وہ بری طرح پٹ گیا اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر اور بے روزگار ہوئے۔ بجلی اور پانی کی قلت پیدا ہوئی۔ فاضل مصنفہ 2000ء میں ہیری اوپن ہیمر کے مرنے پر منڈیلا کی طرف سے اسے اپنے عہد کا عظیم جنوبی افریقی سپوت قرار دینے پر بھی معترض ہیں کہ یہ صاحب جنوبی افریقہ میں کان کنی کی ایک بڑی اینگلو امریکن کمپنی کے سربراہ تھے، جس نے نسلی عصبیت کی حامل استحصالی حکومت کی مدد سے سیاہ فام لوگوں سے سستے داموں مزدوری کروا کر خوب پیسہ بنایا۔

ارون دھتی رائے کی دانست میں منڈیلا اور لولو کو کمزور اور دغا باز قرار دینا درست نہیں اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہے، اس کے بجائے وہ درندے کی نوعیت اور فطرت کو جاننے پر زور دیتی ہیں، جس سے سیاست دان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے تو لڑتے ہیں لیکن حکومت میں اسی کا تر نوالا بن جاتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں: ’’ کسی بھی رہنما کی کرشماتی شخصیت اور جدوجہد کی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس زعم میں مبتلا ہو جانا کہ اس کی یہ خوبیاں کارپوریٹ گروہ کی جمعیت کو ہلکی سی ضرب لگانے میں کامیاب ہو جائیں گی، اس امر سے بے خبری کی علامت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح کام کرتا ہے یا طاقت کس طرح کام کرتی ہے۔ ‘‘

عالمی مالیاتی ادارے کی قوت کا اندازہ ان کی ایک اور تحریر ’’ قطرہ قطرہ انقلاب ‘‘ سے بھی ہوتا ہے جس میں وہ ہندوستانی سیاست میں منموہن سنگھ کی انٹری کو آئی ایم ایف کے مرہون منت کہتی ہیں اور اس بات کی تصدیق کے لیے مغربی بنگال کے سابق وزیر خزانہ اشوک مترا کی آپ بیتی ’’ایک باتونی آدمی کا قصہ‘‘ کا حوالہ دیتی ہیں، جس میں لکھا ہے کہ 1991میں جب ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہت زیادہ کمی ہوگئی اور نرسمہا رائو کی حکومت آئی ایم ایف سے قرض مانگنے پر مجبور ہوئی تواس کے لیے جو شرائط رکھی گئیں، ان میں سے ایک شرط منموہن سنگھ کو وزیر خزانہ بنانا بھی تھی۔ منموہن سنگھ بعد میں دس سال ہندوستان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے دور میں کارپوریٹ سیکٹر نے ہندوستان میں جڑیں بہت مضبوط کرلیں۔

منموہن سنگھ نے اپنی کابینہ اور بیورو کریسی میں چن چن کر وہ لوگ اکٹھے کیے جن کا عقیدہ تھا کہ کارپوریٹ سیکٹر ہر چیز کا انتظام سنبھال لے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور کارپوریٹ سیکٹر کی چیرہ دستیوں کے بارے میں ارون دھتی رائے کے نقطۂ نظر کا لُب لباب یہ ہے کہ انھوں نے جس ملک میں ڈیرہ ڈالا وہاں کے باسیوں کے دلدر دورنہیں ہوئے بلکہ انھیں پہلے سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، اورایسے ممالک میں ہندوستان سرفہرست ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).