ہزارہ برادری کا دھرنا: وزیر مملکت کی ہر قسم کی سکیورٹی کی یقین دہانی


کوئٹہ

اس بم حملے میں میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے

پاکستان کے وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ امور شہر یار آفریدی نے کہا ہے کہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ظلم عظیم ہوا ہے اور موجودہ حکومت ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

شہریار آفریدی کوئٹہ کی سبزی منڈی میں خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت کے لیے ہزارہ ٹاؤن میں واقع امام بارگاہ گئے تھے۔

تاہم ہزارہ برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہیں امید تھی کہ وزیر اعظم عمران خان خود ان کے پاس آتے۔

واضح رہے کہ کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی کی سبزی منڈی میں ہونے والے خود کش حملے کے خلاف ہزارہ قبیلے کے افراد کا دھرنا جاری ہے۔ یہ واقعہ جمعے کو اس وقت پیش آیا تھا جب ہزارہ قبیلے کے پھل اور سبزی فروش وہاں خریداری کے لیے گئے تھے۔ اس واقعے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

اسی بارے میں

ہزارہ احتجاج: ’حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں‘

اب پاکستانی کیا کریں؟

ہزار گنجی نیوزی لینڈ کا علاقہ نہیں!

ہزارہ بھائیو، ہماری جان بخش دو

شہر یار آفریدی

وزیر مملکت برائے داخلہ امور شہر یار آفریدی نے کہا ہے کہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ظلم عظیم ہوا ہے

نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق وزیر مملکت شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ ’بعض قوتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں جس کے باعث انھوں نے عوام کو آپس میں لڑانے کے علاوہ ان کو ریاستی اداروں کے ساتھ لڑانے کی بھی کوشش کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف عوام بلکہ سکیورٹی فورسز نے بڑی قربانی دی۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس اداروں کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان آج محفوظ ہے ورنہ شام اور دوسرے ممالک کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔‘

انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کو ہر قسم کی سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔

’امید تھی کہ عمران خان خود آتے‘

وفاقی وزیر مملکت کو اس موقع پر پر سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

فاتحہ خوانی کے بعد مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو اس ماحول میں خوش آمدید تو نہیں کہہ سکتے تاہم ہم یہاں آنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری توقع یہ تھی کہ عمران خان صاحب تشریف لاتے اور نیوزی لینڈ کے اس غیر مسلم وزیر اعظم کی طرح ہمارے لیے مثال بنتے۔‘

انھوں نے کہا وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی سے توقع تھی اور اب بھی توقعات ہیں بشرطیکہ معاملات کو شفاف رکھا جاتا۔

انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ان کے ڈھائی ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

ہزارہ

علامہ ہاشم موسوی کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں ان کا اپنا بھتیجا بھی شامل ہیں لیکن آٹھ دس سال گزرنے کے باوجود انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کے بھتیجے کا قاتل کہاں ہے اوراس کو سزا ہوئی ہے یا نہیں۔

انھوں نے استفسار کیا کہ سزا اور جزا کے معاملات کو کیوں شفاف نہیں رکھا جاتا ہے۔

علامہ ہاشم موسوی نے کہا کہ ’اگر سزا اور جزا کا شفاف نظام نہیں ہوگا تو لوگوں کے ذہنوں میں وسوسہ پیدا ہوگا اور لوگ نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال بھی کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ ہمارے قاتل کہاں بیٹھے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کہ ’ماضی میں جو سیاسی غلطیاں ہوئی تھیں ان کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ماضی کی غلطیوں کا آپ لوگ کسی حد تک ازالہ کررہے ہیں لیکن جزا اور سزا کی نظام میں شفافیت لانا ہوگا۔

علامہ ہاشم موسوی نے کہا کہ ’کوئٹہ میں ایک شخص تھا ہم نے چیخ چیخ کر کہا کہ اس بندے کو پکڑو یہ نفرت پھیلا رہا ہے۔ وہ شخص کچھ وقت کے لیے بند تھا لیکن ان کو دوبارہ چھوڑ دیا گیا جس کے دو تین روز بعد یہ واقعہ پیش آیا۔‘

بلوچستان

علامہ ہاشم موسوی نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ایسے ممالک کے سربراہ جو پوری دنیا میں دہشت گردی کے فروغ میں ملوث ہیں جب وہ پاکستان کے دورے پر آتے ہیں اور ہمارے وزیر اعظم ان کا ڈرائیور بنتے ہیں تو پھر یہ حال ہوگا’۔

یاد رہے کہ جمعہ کو ہونے والے خود کش حملے کے بعد ہزارہ قبیلے کے افراد اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا اور مغربی بائی پاس پر ہزارہ ٹاؤن کے قریب دھرنا دیا جو اب بھی جاری ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اس دھرنے کو ختم کروانے کے لیے مغربی بائی پاس جا کر شرکا سے ملاقات کی لیکن انھوں نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اب وفاقی وزیرِ مملکت بھی کوئٹہ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp