اسلام اور بے وفائی


میں اس کی واقفِ حال تو تھی ہی سب سے بڑھ کر خیر خواہ بھی ۔ اس دن بھی وہ میرے سامنے بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی۔ روتے ہوئے وہ \"nibras01\"اور بھی حسین لگ رہی تھی۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ غم انسان کو حسن عطا کرتا ہے تو میں اس بات کی سب سے بڑی داعی ہوں۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ دلکش ہو گئی تھی۔ نہایت نفاست سے بندھا اسکا حجاب اور ایمان سے مُنّور چہرہ جیسے اُس کی پاکیزگی کی گواہی دے رہا ہو۔ میرا اور اس کا اعتبار کا رشتہ مجھے اس کا نام لےنے کی اجازت تو نہیں دیتا پر یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد ایک ایسے مسئلے کی طرف اشارہ کرنا ہے جس کا ادراک یا تو تقسیمِ ہند سے پہلے کے لکھاریوں نے کیا ہو گا یا پھر جو مسلسل ایسے واقعات سے کسی نہ کسی طور وابستہ یا با خبر رہے ہوں گے ۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ آج ایک اور غیر مسلم لڑکی اسلام قبُول کر کے نئی نئی بے آسرا ہوئی تھی۔

 دبئی میں رہتے ہوئے کسی غیر مسلم کے لئے اسلام جیسے معّطر، منّظم اور سخی مذہب سے مرعوب ہونا کوئی انوکھی بات ہے نہ ہی اس کو سمجھنے اور اپنانے کی سعی کرنا کچھ ایسا مشکل ہے ۔ ہم جیسے مسلمان جو آج کوئی اور تفاخر تو فتح کرنے سے رہے، ہمارے ایمان کی تازگی کو یہی کافی رہتا ہے کہ آج کسی فلپینو لڑکی نے اسلام قبول کر لیا اور اب اسکا نام گریس سے آمنہ ہو گیا۔ آج ہماری ہندُو سہیلی پریا سے فاطمہ ہو گئی یا یہ کہ ہم گواہ بنے اُن متعدد لوگوں کے جو ہمارے ساتھ آج ڈاکٹر ذاکر نایئک کے Peace Convention میں شمولیت کے لئے دبئی اکسپو سنٹر میں جمع ہوئے تھے اور جنھوں نے ہمارے سامنے کلمہ پڑھا اور اسلام قبُول کیا۔

 میں پچھلے چند سال سے اُسے بھی ان تمام تفخرات کو گلے لگائے اپنے اللّہ سے آسانیاں مانگتے دیکھ رہی تھی۔ پہلا دھچکا تو اُسے یہ لگا کہ جو رشتے ازلی ابدی سمجھے جاتے ہیں اُن کی حقیقت خُوب عیاں ہو گئی۔ مذہب بدلنے کے ساتھ ہی ایک کوکھ کے رشتے بھی پرائے ہو گئے۔ اپنے تو چھوُٹے ہی ساتھ ہی اس خیال سے کہ جس شدت پسند ہندو اکثریت کے علاقے سے وہ تعلق رکھتی تھی وہاں لوٹنے کی اب کوئی گنجائش نہ بچی تھی۔ سو ملک بھی خیر باد ہوا۔ وہ روتی رہی اور اپنے اللّہ سے طاقت مانگتی رہی۔ پر مطمئن تھی کہ اب وہ مسلمان ہے ۔ میں نے ہمیشہ اس کے منہ سے الحمدُللّہ کا کلمہ ہی سنا۔ دوسرا دھچکا اِس صورتحال میں البتہ نا قابلِ برداشت تھا۔کہ جس محبت کی خاطر وہ اس راہ پہ نکلی تھی اُس نے ہی اب راہ بدل لی تھی۔ اسلام قبُول کرنے کی وجہ اگر اس مذہب کے وہ خصائل ہیں جو میں بیان کر چکی تو میں یہ بھی کہنے سے چُوکنا نہیں چاہتی کہ اُ ن خصائل کے ادراک کا سب سے بڑا ذریعہ محبت کا جذبہ ہے۔ اکثر لوگ باہمی محبت میں گرفتار ہو کر اس طرف آتے ہیں جو محبت کے جذبے کا ایک اور معتبر اور جائز رُوپ ہے ۔

 دو سال کی دیوانہ وار محبت کے بعد میرے مسلم پاکستانی بھائی کو یہ احساس ہوا کہ اس ہندو لڑکی کو (جو کہ اب مسلمان ہو چکی تھی) اس کا خاندان قبول کیسے کر سکتا ہے۔ اور پھر وہ پاکستانی بھی تو نہ تھی۔ ہزار مسائل ہوں گے کل کو اُس کے پاکستان آنے جانے میں۔ یہ بے وفائی تھی۔۔ ۔مگر مختلف اور زیادہ تکلیف دہ اس لئے تھی کہ اسلام کی راہ پہ لا کر یوں چھوڑنا اب انفرادی عمل سے کچھ بڑی ذمہ داری تھی جس کو سمجھنے کی اہلیت اگر نہ ہو تو اس نیکی سے پرہیز ہی بہتر ہے۔

 میں یہاں ضرور بتانا چاہوں گی کہ اُس لڑکی میں کس قد ر استقامت تھی کہ ایک لمحے کو اُس نے واپس پلٹ کر نہیں دیکھا نہ کبھی کوئی حرفِ شکایت زباں پہ لائی اور دین کو سمجھنے کی جستجو میں لگ گئی۔ شاید اپنی اسی تحریر کا حو الہ دیتے ہوئے میں آپ لوگوں کا اُس مسلمان خاتون سے بحیثیت ایک نو مسلم داعی کے مستقبل قریب ہی میں تعارف بھی کرواؤں کیونکہ وہ اس سفر پر تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔

 اب جو بیٹھی وہ میرے سامنے رو رہی تھی (بات وہیں سے آگے بڑھاتی ہوں جہاں سے شروع کی تھی) تو معاملہ پھر سے وہی تھا۔ تاریخ ایک بار پھر خُود کو دہرا رہی تھی ۔آج ایک اور ہندو لڑکی کے ساتھ ویسا ہی ہوا تھا۔ وہ بھی دو راہے پہ کھڑی تھی کہ بے وفائی کے بدلے ایک شخص کی محبت کو اسلام سے نفرت میں بدل ڈالے یا اللّہ سے طاقت مانگے اور استقامت سے دین کی راہ پہ چلتی رہے۔ میری دوست خوفزدہ تھی کہ گیتا پلٹ رہی ہے۔ ’وہ اتنی بڑی خوش نصیبی ٹھکرانے کو تیار بیٹھی ہے۔ بھابھی آپ میرے ساتھ چلئے ہم اُسے حوصلہ دیتے ہیں‘۔ ہم نے اس ضمن میں کافی محنت کی اُس لڑکی کے انڈیا لوٹ جانے تک ۔میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیاکہ بھلے ہی ہم اور ہندوستان جغرافیائی تقسیم سے بٹ گئے ہیں پر ہمارے عوام کو ایک دوسرے سے ایک عجیب سی کشش باندھے رکھتی ھے۔ ہم کسی بھی نان ا نڈو پاک پلیٹ فارم پہ ہمیشہ ایک بن کر بات کرتے ھیں۔ایک دوسرے کے اشاراتی مزاح تک سے بخوبی واقف ہیں ۔ اور یقین جانئے بات جب محبت کی آتی ہے تو ہندو اور مسلمان لڑکے لڑکی کی باہمی محبت بڑی ہائی وولٹیج کی ہوتی ہے۔

 مجھے اپنے مسلمان بالخصوص پاکستانی بھائییوں سے اس تحریر کے توسط سے یہ درخواست بھی کرنی ہے کہ خدارا اس کام میں ہاتھ نہ ڈالیں جس کو ایک احسن انجام تک پہنچانے کی سکت آپ میں نہیں۔ یقیناً اسلام قبول کرنا اور دین کی راہ پہ چلنا انسان کے باہمی تعلقات سے قطعاً مشروط نہیں مگر بے وفائی کی اذیت اس سفر کو کٹھن ضرور بنا دیتی ہے۔ غور طلب پہلو تو یہ بھی ہے کہ جب نکاح کر لےنے کے بعد بھی جیون ساتھی کو اِس راہ پہ تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے گھر دیکھتی ہوں جہاں نام تو بدل جاتے ہیں مگر دھرم یا ریلجن وہی رہ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments