نصیر احمد ناصر: نظم کی دریافت


نصیر احمد ناصر سے میرا تعلق ایک منفرد شاعر اور انفرادیت پسند مداح کا ہے جو یوں تو اتنا قدیم ہے جتنی خود نظم لیکن اس کا ادراک یا انکشاف 2005 ء میں ہوا جب میں پنجاب یونیورسٹی میں تھی۔ تب سے اب تک یہ بغیر کوئی بڑی تبدیلی دیکھے یونہی چلتا آ رہا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بے شمار با ذوق ملے انہی میں سے میری ایک دوست ناصر صاحب کی شاعری لائی اور ایسی لائی کہ خود تو وہ پتا نہیں کہاں چلی گئی لیکن اس شاعری نے میرے اندر مستقل گھر کر لیا۔ میں اُسے چائے کا لالچ دیتی اور وہ نصیر احمد ناصر کی نظمیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر لاتی۔

ان کی نظم سے پہلا تعارف ایسا تھا جیسے پہاڑ کی چوٹی پہ اپنی دھن میں چلتے ہوئے کوئی بادل آپ کو ایسے چھو کے گزر جائے کہ آپ نہ خشک رہیں نہ شرابور ہوں۔ گدگداہٹ، اکساہٹ اور انفرادیت گڈ مڈ ہو جائے۔ پہلے پہل ان کی نظم پڑھ کر لگتا ہے جیسے یہ آپ ہی کے لیے لکھی گئی ہو۔ پھر جوں جوں آپ اس کو ریلیٹ کرتے جاتے ہیں یہ آپ کے اندر اور باہر، اَن گنت جہات میں کائنات کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہے اور آپ خود کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ناصر صاحب سے یہ تعارف آگے چل کر ہمہ جہت ہو گیا۔

ایک بار یونہی ایک کولیگ سے اِدھر اُدھر کی باتوں کے دوران ان کی تخلیقی صلاحیت کی بات کرتے ہوئے کسی نے کہا ان کے والد شاعر ہیں۔ کون؟ کان کھڑے ہونا تو بنتا تھا۔ نصیر احمد ناصر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دوسرا تعارف تھا۔ اس تعارف نے ان کی شخصیت کا بہت ہی خوبصورت رنگ دکھایا۔ ان کی دونوں بیٹیاں اتنی سلجھی ہوئی، مہذب اور انسان کا احترام کرنے والی ہیں کہ آپ ان کے سامنے کوئی منفی بات کر ہی نہیں سکتے، وہ ہر منفی کو مثبت کر دیتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ تربیت سے آیا ہے۔

نصیر احمد ناصر کی شخصیت کے کئی پہلو فیس بک پہ نظر آئے۔ بہت کم شاعر اور ادیب اپنے مداحوں کو انفرادی توجہ یا رسپانس دیتے ہیں لیکن وہ پائلو کوہلو کی طرح سب کو توجہ اور ریسپانس دیتے ہیں۔ ان کے خفیہ مداحوں کی تعداد نظر آنے والے مداحین سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز کوئی نئی یا نیا فین دریافت ہوتا ہے۔ ناصر صاحب کے ٹاپ فین جانچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ کتنے تواتر سے ان کے ساتھ ملاقاتوں کا تصویری احوال دکھاتے ہیں۔ کئی بار ملاقات پرانی ہو جائے تو پرانی ملاقات سے نئی تصاویر نکال لاتے ہیں۔ یہ ان کی اپنے دوستوں اور مداحوں سے محبت کا انداز ہے۔ سوشل میڈیائی اظہار۔ ان کا یہ میڈیائی تصویری اظہار اتنا مقبول ہے کہ دوست احباب اپنی تصویریں ان کی وال پہ لگوانا اعزاز سمجھتے ہیں۔ اندر خانے کی اطلاع ہے کہ ان کے ان باکس فرمائشوں اور تصویروں سے بھرے رہتےہیں۔

نصیر احمد ناصر کی نظم پڑھنے والوں اور والیوں نے خود ان کو بھی نظم کرنے میں کسر نہیں اٹھا رکھی۔ بلاشبہ والیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ شاعر کی زمین پہ نظم کہنا اگر داد ہے تو شاعر پہ نظم کہنا کیا ہی عمدہ داد ہے۔ اور یہ داد ان کو اتنی وافر ملتی ہے کہ بنفسِ نفیس سراپا نظم یعنی چھ فٹ کی نظم لگتے ہیں۔ فیس بک پہ فیس یعنی ڈی پی اتنی بار بدلتے ہیں کہ تنگ آ کر مجھ جیسی خاموش مداح کو بھی ان کے لیے “نظم ڈی پی بدلتی ہے” لکھنا پڑی۔

نظم ڈی پی بدلتی ہے/ نائلہ رفیق

(نصیر احمد ناصر کے لیے)

نظم ڈی پی بدلتی ہے

کبھی سرمئی شام کاندھوں پہ لیے

کبھی دودھیا صبح کا چھجا پیشانی پہ رکھ کر

نظم فوٹو بناتی ہے

اور ڈی پی کر دیتی ہے

سینکڑوں عنوان کمنٹس بن کر

نظم کو گھیر لیتے ہیں

نظم مسکراتی ہے

احباب ۔۔۔۔۔ احباب۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ احباب

مگر میں کچھ نہیں کہتی

کیوں کہ نظم ڈی پی بدلتی ہے

آنکھیں نہیں

کئی برسوں سے ہر ڈی پی ہر پکچر میں وہی آنکھیں پیسٹ کرتی ہے

زمانے کی حدوں سے پار

بھوری کھوج سے تازہ لِپی آنکھیں

جن کے ایک کونے میں مسکراہٹ ٹھٹھکی کھڑی ہے

کیمرہ جس بھی اینگل سے نظم کو تصویر کرتا ہے

آنکھیں اوور لیپ ہو جاتی ہیں

ڈی پی تو بدلتی ہے

آنکھیں صدیوں سے وہی ہیں

میں ہر بار

خاموشی سے مسکرا کر لوٹ آتی ہوں

کمنٹ میں کچھ نہیں کہتی!

تصویریں گواہ ہیں کہ کھانوں کے شوقین ہیں اور عمدہ ذوق رکھتے ہیں ذائقے اور ماحول دونوں کا۔ بالخصوص کافی کا۔ شنید ہے کہ سونگھ کر کافی کی کوالٹی جانچ لیتے ہیں۔ چکھنے تک نوبت نہیں جانے دیتے۔ جہاں ان کی نظم نے اردو شاعری کو ایک نیا اعلیٰ و ارفع معیار دیا ہے وہاں ان کی نظموں کے تراجم نے بھی اردو شاعری کی انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کاری کو ایک نیا بُوسٹ دیا ہے۔ ان کی نظم پوسٹ ہوتے ہی ترجمہ کاروں کی ایک دوسرے پہ سبقت کے لیے دوڑ لگ جاتی ہے۔

ان کی شخصیت نے بھی ادب پروری کے کئی نئے ٹرینڈز اور فیشن دیے ہیں۔ شاعر اپنی شاعری سنا کر خوش ہوتے ہیں یہ دوسروں سے ان کی اور کبھی کبھی مروت میں اپنی نظمیں سن کر خوش ہوتے ہیں۔ نئی نسل کی شاعرات اور خواتین انہیں شوق سے کافی پلاتی ہیں اور ان کو ان ہی کی نظمیں سناتی ہیں۔ یہ فیشن اتنا مقبول ہوتا جا رہا ہے کہ ان کو “ڈیٹس” یاد رکھنے کے لیے ڈائری رکھنا پڑ گئی ہے۔ شاعر شہرت کو پانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگتے ہیں یہ شہرت سے بچنے کے لیے اس کے آگے آگے اور شہرت ان کے پیچھے بھاگتی ہے۔ میڈیا شائی اتنے ہیں کہ ان کا کلام تو پڑھا سنا ہو گا لیکن ان کو کلام سناتے ہوئے کسی نے دیکھا نہ سنا ہو گا۔

ان کے بالوں کی سفیدی کا ذکر اتنے تواتر سے ہوتا ہے کہ اب کہیں سفید بال نظر آئیں تو ناصر صاحب کا گمان ہوتا ہے۔ مجھے تو سفید بادل دیکھ کر بھی ان کا گمان ہوتا ہے۔ گلزار ان کی سفید مونچھوں اور شاعری کے مداح ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا یہ سفید مونچھوں والا دوست کمال کا شاعر ہے۔ فین قسم کے لوگوں نے تو انہیں “سفید بالوں والا بدھا” بنا دیا ہے۔ سنا ہے ان کے سفید بالوں کی مقبولیت سے خائف ہو کر رقیبانِ عصر نے اچھے بھلے رنگے ہوئے سیاہ بالوں کو سفید رنگ لگانا شروع کر دیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے نقل نقل ہی رہتی ہے چاہے وہ شاعری کی ہو یا سفید بالوں کی۔ اب ہر کوئی نصیر احمد ناصر جیسی اصلی شاعری اور اصلی سفید بال کہاں سے لائے۔

اسفار ‘ اثمار اور اشجار ان کا ایک اور حوالہ ہیں۔ اسلام آباد میں بہار اپنا پہلا سیمپل ان کے ٹیرس پہ اتارتی ہے۔ پسند کر لیا جائے تو سارے اسلام آباد میں بہار اتر آتی ہے۔ پھل ایسے سلیقے سے درختوں سے ٹوکریوں میں منتقل کرتے ہیں جیسے لفظ کاغذ پر لیکن مجال ہے کسی مداح کو کبھی چکھنے کے لیے دیا ہو۔ سفر در سفر بیانیے اور اظہاریے تخلیق کرتے ہیں۔ لفظوں اور تصویروں سے کئی بار کی دیکھی جگہ کا ایسا تعارف کروا دیتے ہیں کہ لگتا ہے ہم غنودگی میں دیکھ آئے تھے جو ان جہات کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ بچوں بوڑھوں اور دور دیسوں بلکہ سیاروں ستاروں میں بھی بسنے والوں کے خوابوں اور جذبات کے مترجم ہیں۔ ان کی نظموں کے بھی ایسے ہی ادوار ہیں جیسے انسان کی اپنی حیاتی کے ہوتے ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہر دور کی نظمیں لکھ ڈالی ہیں لیکن خود ابھی تک بچے کے بچے ہیں۔ اپنی نظموں میں کئی عمریں جی چکے ہیں لیکن کہتے ہیں:

جینا اگر اتنا آسان ہوتا

تو میں عمر بھر جیتا

اور اتنی نظمیں لکھتا

کہ دنیا لفظوں سے بھر جاتی

نصیر احمد ناصر نہ صرف اس زمین اور زمین پر بسنے والے افراد کے بلکہ کائنات کے محب ہیں اور شاید محبوب بھی۔ محبت میں لوگ نامے لکھتے ہیں وہ تسطیر چھاپتے ہیں۔ نو آموزوں کا اظہار الفاظ کے ناخداؤں کے ساتھ ۔۔۔۔۔ یہ جرات اور کون کرتا۔ محض نمود و نمائش کے لیے اسکرین پہ رہنے کی بجائے ایک طرف رہ کر حقیقی کام کرتے ہیں لیکن نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پراوہ۔ نہ انعام و اکرام کی خواہش نہ تمغوں کی حسرت۔ شاید ہی کہیں ہجوم میں پائے جاتے ہوں۔ منفی ادبی سماجیات کو زیرِ ہلاہل اور نام نہاد رونمائیوں پذیرائیوں کو شعر و ادب کے لیےممنوعہ سمجھتے ہیں۔

ان کے مداحوں کو حسرت ہی رہی کہ کبھی ان کی کسی کتاب کی رونمائی اور ان کی تقریبِ پذیرائی دیکھیں لیکن اس ضمن میں انہوں نے تو جیسے اپنا ہی ریکارڈ نہ توڑنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ بھلا ہو فیس بک کی ایجاد کا کم از کم دیکھنے کو تو مل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ایک دنیا ہے جو ان سے محبت کرتی ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اپنی پہچان بناتی ہے۔ ان سے مل کر، ان کی خاموشی سے باتیں کر کے خوش ہوتی ہے، ان کا ذکر احترام سے کرتی ہے اور ان کی انفرادیت کو غنیمت جانتی ہے اور ان کا نام آئے تو حدِ ادب ملحوظ رکھتی ہے۔ یہی وہ طریق ہے جو ہم نے ان میں دیکھا ہے اور ان سے سیکھا ہے۔ احترامِ انسان !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).