نظام میں تبدیلی نا گزیر!


1947 ء میں برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے ایوان میں ایک تاریخی بات کی تھی اس نے کہا تھا کہ حکومت کی بے شمار اقسام کو آزمایا گیا اس گناہ اور پریشانی کی دنیا میں آنے والے وقتوں میں بھی آزمایا جاتا رہے گا لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جمہوریت ایک مکمل طرز حکومت ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد اپنی عمر کی اکہتر بہاریں گذار چکا ہے اس وقت پوری دنیا میں جمہوریت کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے پہلی براہ راست جمہوریت جس میں براہ راست اہل افراد میں سے وفاقی وزراء کا انتخاب کیا جاتا ہے اور وزراء کسی ایک کو مخصوص مدت کے لئے بحیثیت صدر منتخب کرتے ہیں ’دوسری جمہوریت کی قسم صدارتی نظام جمہوریت ہے اس جمہوری نظام میں صدر مملکت ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے جو کہ خالصتاعوامی رائے دہی کے بعد براہ راست یا پھر ایک کمیٹی کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے‘ تیسری جمہوریت کی قسم پارلیمانی نظام جمہوریت ہے جو کہ اس وقت پاکستان میں رائج ہے۔

پارلیمانی جمہوری نظام میں وزیر اعظم ملک کا سربراہ ہوتا ہے اور اراکین پارلیمنٹ میں سے وفاقی وزراء کی تقرریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ جمہوریت پارلیمانی اور صدارتی نظام کے گرد گھومتی ہے کسی بھی ملک کے معروضی حالات کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں کون سا نظام جمہوریت بہتر رہے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو آٹھ ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن حکمران سیاسی و معاشی عدم استحکام کو سنبھالا دینے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں جس کے باعث عوام مسائل کے گرداب میں دھنستی چلی جا رہی ہے مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر جس طرح عوام کی شہ رگ سے لہو نچوڑ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے موجودہ حکمرانوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہو رہا کہ ملک کی درست سمت کا تعین کیسے کیا جائے۔

ملک میں ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے ان حالات میں عوام تحریک انصاف کی اس منہ زور تبدیلی سے خائف نظر آرہی ہے۔ اب میڈیا اور سیاسی و عوامی حلقوں میں اس باز گشت کو تقویت مل رہی ہے کہ ملک میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صدارتی نظام لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے فیصلہ ساز قوتیں اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہیں کہ اس نظام میں نہ کرپٹ مافیاز کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے اور نہ ہی صحیح معنوں میں عوام تک جمہوری ثمرات پہنچ سکتے ہیں۔

کیونکہ اقتداری ایوان کی کابینہ میں وہی چہرے براجمان ہیں جو آنے والی ہر حکومت کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں اور آج بھی وہی بھیس بدل چہرے کرپٹ افراد کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی وہ سیاستدان ہیں جو حکومتیں گرانے اور بنانے میں محلاتی سازشوں میں شریک رہے۔ ان حالات میں موجودہ نظام کے یہ مہرے کبھی بھی کسی خوش کن تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکتے۔ آپ دنیا کے معاشروں پر نظر دوڑا لیں جن معاشروں میں دولت اور وسائل کے ارتکاز کو ختم کر کے عوام میں منصفانہ طریقے سے تقسیم کیے گئے وہی معاشرے دنیا کے معاشروں کے لئے رول ماڈل بنے ان ترقی یافتہ مہذب معاشروں میں جمہوریت کو مکمل جمہوری لوازمات کے ساتھ نافذ العمل کیا گیاجس کی بنا پر ان معاشروں میں بسنے والے افراد قومی دھارے میں شامل ہو کر ترقی و خوشحالی کے ضامن بنے۔

جمہوریت کے عالمی چارٹ کو اٹھا کر دیکھ لیں پاکستان کا نمبر جمہوری ممالک کی فہرست میں 109 واں ہے اس سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ہم جمہوری جنگ میں کہاں کھڑے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان جمہوری ملک ہو نے کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جگہ نہ بنا سکا۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے بادشاہت نظام سے 1949 ء میں ماوزے تنگ کی قیادت میں خلاصی حاصل کر کے جمہوری دور میں قدم رکھا۔ ہم سے دو سال بعد جمہوریت کے ہم رکاب ہونیوالا چین آج دنیا کی منڈیوں پر راج کر رہا ہے۔ امریکہ جیسی زمینی سپرپاور بھی اس کی مقروض ہے۔ تقریبا ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل چین کی مضبوط معشیت دنیا کے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ اس کی اقتصادی پیش قدمی کو روکنے کے لئے دنیا کی طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔

چین رقبہ کے لحاظ سے روس ’کینڈا اور امریکہ کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے یہ بھی دنیا کے لئے ایک مثال ہے کہ چین جو اتنا وسیع رقبہ کا حامل اوراتنی بڑی آبادی رکھنے والا ملک اپنے مسائل کو حل کرتا ہوا کیسے دنیا کی اقتصادی سپر پاور بن گیا۔ آج چین دنیا کے ممالک کے لئے ایک رول ماڈل بن چکا ہے چین کی معشیت کو دیکھ کر دنیا اپنی معاشی سمتوں کا تعین کر رہی ہے دنیا کی پسی اور نشے کی لت میں مبتلا ناکارہ قوم اپنی صلاحیتوں اور اقدامات کی بدولت دنیا کی معشیتوں کو پچھاڑ رہی ہے۔

جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ وہی چین ہے جس نے پاکستان کے ذریعے دنیا کو دیکھ کر پرکھنا شروع کیاتھا۔ لیکن افسوس چاروں موسموں سے مزین ’بہترین آبپاشی نظام رکھنے والا‘ قدرتی ذخائر سے مالا مال ’زراعت میں خود کفیل پاکستان ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر نے کی بجائے چین کے در کا ہی مجاور بن گیا۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ چین ترقی کے زینوں پر قدم رکھتا چلا جارہا ہے اور پاکستان مسائل کے نشیب کے بھنور سے ابھی تک نہیں نکل پایا حالات کے زائچے کی دستک جو بتا رہی ہے وہ غور و فکر کی متقاضی ہے۔

پاکستان میں ایسے کون سے عوامل ہیں جو جو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جو نظام کو ساکت کیے ہوئے ہیں اس وقت پاکستان کا نظام تین بڑے مسائل سے نبرد آزما ہے جس کے باعث یہ ملک بجائے ترقی کرنے کے تباہی کے دوراہے پر آن کھڑا ہوا۔ پہلا جاگیردارانہ ’سرمایہ دارانہ نظام دوسرا جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ناخواندگی‘ تیسرا ناقص عدالتی نظام ان تین بڑے مسائل کے باعث یہ ملک تباہی سے دوچار ہو رہا ہے اور عوام جمہوری ثمرات سے محروم ہے۔

جس ملک کے جمہوری نظام کے راستے میں یہ مسائل سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں تو پھر ایسے معاشرے غربت و افلاس ’بیروزگاری‘ لاقانونیت ’مہنگائی‘ انصاف کی عدم دستیابی ’کرپشن‘ خودکشیوں ’خودسوزیوں جیسے مہلک مسائل کا شکار ہو کر وحشت و درندگی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان سات دہائیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود ابھی تک ترقی کی طرف گامزن نہیں ہو سکاعوام مقتدر طبقات کی خودساختہ جمہوریت کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں جہاں ان کے دامن میں اقتداری ایوانوں سے ہونے والے خوش کن اعلانات اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں آخر کب تک عوام ان کی خود ساختہ جمہوریت کی جنگ لڑتی رہیگی جس میں ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔

اس ملک کا نظام سیاسی و معاشی استحکام لانے کیے لئے بہت بڑے آپریشن کا متقاضی ہے کیونکہ اگر اکہتر سال میں یہ نظام اس ملک کو سیاسی و معاشی استحکام نہیں دے سکا تو پھر یہ موجودہ نظام اس ملک کے لئے مستقبل قریب میں زہر قاتل سے کم ثابت نہیں ہو گا۔ دنیا گلوبل ویلج بن کر انسانی پوروں میں سمٹ آئی ہے اگر ہم نے آنے والے حالات اور وقت کے تقاضوں پر نظر رکھ کر اپنے آپ کو تیار نہ کیا تو پھر ہمیں اپنے زوال کے اسباب ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).