جھنڈے میں سفید پٹی اور نربدا کا گھاٹ


\"hinaزیادہ نہیں یہی کوئی دو گھنٹے قبل میرے سامنے والے گھر کی چھت پہ ایک چھوٹا سا لڑکا اپنے بڑے بھائی کو پاکستانی پرچم برقی قمقموں سے سجاتے ہوئے بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ ہوا کے چلنے سے جونہی پرچم ہوا میں لہراتا وہ خوشی سے زور زور سے اچھل کر تالیاں پیٹتا۔ دفعتاََ مجھے ایک اور بچہ یاد آیا۔ وہ بچہ جو ایک کہانی کا معصوم کردار ہے۔

اسد محمد خان کی کہانی نربدا میری پسندیدہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ کہانی ہے شیر شاہ سوری کے زمانے کی جب ہندوستان کا بادشاہی نظام اعلیٰ انسانی اقدار کو ایک ہندو مسلم معاشرے میں سموئے ہوئے بغیر کسی بیرونی دباؤ اور تعصب کے مختلف تہذیبوں کے سنگم سے ایک مشترک اور مثالی نظامِ جمہوریت قائم کئے ہوئے تھا۔ کہانی کا مرکزی کردار بوڑھا لیکن دلیر ٹھاکر کنور بکرم نارنگ سنگھ اوجینی اپنے بیٹے کنور بکرم سارنگ سنگھ اوجینی کے ہمراہ ایک بے سہارا مسلمان لڑکی کی مدد کرتے ہوئے نربدا نامی دریا کے پار رہنے والے ایک مسلمان لڑکے، اس کے گھر والوں اور گاؤں کے بزدل لوگوں کو مسلمان ٹھگوں سے نجات دلاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ گاؤں کے سب ہندوؤں کی مخالفت مول لیتے ہوئے وہ اس مسلمان لڑکے کو نہ صرف اپنے مقدس کنویں سے پانی پلاتا ہے بلکہ کنویں کی منڈیر پہ بٹھا کے اُسے اپنے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھلا کر نفرت کی وہ فصیل بھی گرا دیتا ہے جس کی بنیاد مذہب اور معاشرے کے تعصب اور ذاتی عناد پہ رکھی گئی ہے۔

’’لڑکا چپ تھا یا بہت سے بہت بڑے میاں کی ہر بات پہ ہوں ہاں کر کے سر ہلا دیتا تھا۔۔ دیکھ یہ کھو تیرے باپ اور تیری ماں کے گاؤں کا کھو ہے۔ میرا بھی ہے۔ کوئی ہم کو کو کائے کو ٹوکنے لگا۔۔۔ چوراہے میں کھلنے والی سب گلیوں میں لوگ اکھٹے ہو گئے تھے۔

بوڑھے کنور نے کونڈے پہ ڈھکا کیلے کا پتہ ہٹایا۔ ایک روٹی لڑکے کی طرف سرکائی، دوسری اپنی طرف کھینچی۔۔ پھر چاروں طرف ناراض آنکھوں سے دیکھتے ہوئے نوالا توڑ لیا۔

لڑکا اپنا نوالا منہ کی طرف لے جاتا تھا کہ ٹھاکر جھنجھناتی ہوئی آواز میں بولا، ’’تجھے بِسملّا کوئی نے نئیں سکھائی رے؟ــ‘‘

بساطی کا لڑکا چمک گیا۔ ڈری ہوئی آواز میں بولا، ’’بِس مِلّا!‘‘

کنور نے تسلّی دی۔ ’’ہاں شاباش۔۔ اب کھا۔ ‘‘

اور خود اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے منہ میں نوالا رکھ لیا۔ ’’جے جے پربھو!‘‘

جتنی دیر تک وہ دونوں کنویں کے منچ پہ کھانا کھاتے، پانی پیتے، منہ ہاتھ دھوتے رہے۔ گاؤں والے گلیوں کے دھانے پہ موجود رہے۔۔ بستی کے بیرونی حاشیے سے چھ، آٹھ ڈھیڑ، پاسی، چمار دوڑے دوڑے آگئے تھے۔ وہ پرانے پیپل کی اوٹ لئے اونچی جاتیوں کے کنویں کی دُرگتی دیکھتے رہے۔ وہ ڈرے ہوئے تو ہوں گے ہی پر بوڑھے ٹھاکر کو عقیدت سے بھی دیکھتے جاتے تھے۔ ‘‘

اس وقت بوڑھے ٹھاکر کے کردار میں انسانیت کا جو وقار ابھرتا ہے اس کی روشنی پوری کہانی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ سچ پوچھئے تو کہانی کا یہ زمانہ اور یہ دونوں انمول کردار مجھے بے حد پسند ہیں۔ یہ زمانہ ہمارے مختلف فرقوں میں منقسم سماج سے بدرجہا بہتر تھا۔ اُس وقت مذہب کے نام پہ کسی کے خون کے بدلے جنت کی خرید و فروخت نہیں کی جاتی تھی اور نہ ہی فرقہ واریت کے ضمن میں کسی کے ریاستی حقوق غضب کئے جاتے تھے۔ فرد کی پہچان دھرتی سے تھی۔ جس پہ سب کا حق مشترک اور یکساں تھا۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم نے اپنا ماضی، اپنا تاریخی شعور سب کھو دیا ہے۔ ہم بڑے فخر سے اپنے بچوں کو بادشاہوں اور سلطانوں کی کہانیاں سناتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ہم ان کہانیوں میں سے ایک عام ہندوستانی کا کردار منہا کر دیتے ہیں؟ ایک عام ہندوستانی جس کی سماجی تربیت میں کئی تہذیبوں کا سنگم ہوا تھا۔ جس کے لئے پرائے مذہب کی حرمت اور تقدیس ویسی ہی تھی جیسی کہ اپنے مذہب کی۔ جس نے اپنے سماجی تعلق کی بنیاد مذہب کو نہیں بلکہ دھرتی کے اشتراک کو بنایا تھا۔ ہم تو آج اپنے بچوں کو یہ بھی نہیں بتاتے کہ سرحد کی یہ لکیریں کھینچنے سے بہت صدیاں قبل ہم نے ایک مشترک تہذیب و ثقافت کی پرورش بھی کی تھی۔ ماضی کی دھول میں وہ محبتیں بھی تحلیل ہوگئیں جنھوں نے ہندوستان کو بطور ایک اکائی کے مربوط کیا تھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کا حقیقی شعور کیا ہے؟ کیا تاریخ محض قیاس آرائی کا نام ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم اس کی بنیادیں اپنے ملکی یا ذاتی مفاد یا مذہبی سطح پہ جنم دئیے گئے فرقہ ورانہ تعصبات پہ کیوں رکھتے ہیں؟ ماضی کے بارے میں ہمارا علم نا مکمل، امکانی حدود پہ قائم روایات پہ منتج اور متضاد شہادتوں کا بوجھ اٹھائے متعصب مؤرخین کے قلم سے بار ہا مسترد ہو کر مبہم ہو جاتا ہے جسے ہم اپنے مذہبی جانب داری اور قومی تعصب کی بنیاد پر مزید مسخ کر دیتے ہیں۔ ہم اپنی دانست میں تاریخ کے شاہانہ اوراق خود پہ تانے جب بڑے فخر سے نئے بیانیے تشکیل دیتے ہیں تو یہ دیکھنا بھول جاتے ہیں کہ نفرت کی دیمک نے انھیں بوسیدہ کر دیا ہے۔

کسی بھی مثالی جمہوریت میں امن کا قیام وہاں کی تہذیب و ثقافت سے جڑا ایک اہم سوال ہے۔ جس کا جواب ریاست کی فرد کو دی گئی مذہبی، سیاسی اور سماجی اُمور کی آزادانہ پابندی سے مشروط ہے۔ یہ قوانین اپنی جگہ لیکن ذرا اپنے ذرائع ابلاغ پہ نظر ڈالئے آج فرد کی بقاء اور تحفظ کا مسئلہ سرِ فہرست نظر آتا ہے۔ ریاستی بد امنی، دہشت گردی، فرقہ واریت، خود کش حملوں سے جنت کا حصول یہ سب ہمارے مستقبل پہ خوف اور دہشت سے ثبت کئے گئے ہراساں کر دینے والے سوالات ہیں۔ مذہب کے نام پہ نفرت کی خرید و فروخت سے پروان چڑھتی تشدد کی فضا سے ہمارا دم گھٹنے لگا ہے۔

جب ہم کسی بھی مذہب یا معاشرے کے اصول و قوانین کی ورق گردانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر مذہب اور سماج میں انسانیت کی فلاح، بنیادی انسانی حقوق کی ادائیگی اور انسانی جان کی حرمت سرِ فہرست ہے۔ اب ذرا ہماری عملی زندگی میں ان قوانین کے نفاذ کا مظاہرہ بھی دیکھئے ہمارے لئے کسی بھی شخص کی جان، مال، عزت آبرو اس وقت تک محترم ہے جب تک کہ اس کا تعلق ہمارے پسندیدہ مسلک، عقیدے یا فرقے سے ہو۔ جونہی ہمیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص فلاں مسلک یا فرقے کا ہے ہم اپنے تئیں اسے اپنے مسلک یا فرقے میں گھسیٹنے کی نیک کوشش کرتے ہیں اور پھر اگر جنت کے حصول کی ان ادنیٰ کوششوں میں ناکام ہو جائیں تو قطع تعلقی کو فوقیت دیتے ہوئے اس کی عزت کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ اب اگر ہمارا سامع ہماری نصیحت نہ سنے اور اُلٹا ہمیں آئینہ دکھادے تو پھر بدلے اور انتقام کی آگ میں کفر کے دو چار فتوؤں کو اپنا ہتھیار بناتے ہوئے ہم اپنے مخالف کو ہراساں کرنا یا سفرِ آخرت پہ روانہ کر دینا زیادہ احسن خیال کرتے ہیں۔

کسی بھی ملک میں عوام کا سیاسی و سماجی شعور جمہوری نظام میں تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ جبکہ تعلیم، صحت، روزگار، یکساں دیہی و شہری سہولیات، امن و امان کا قیام اور خوشحالی ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ریاست کے جمہوری اداروں میں عوام کا سیاسی و سماجی شعور، مذہبی سطح پہ انفرادی و اجتماعی آزادی، حقِ رائے دہی اور فیصلہ سازی میں کیا کردار ہے؟ عوام اپنے رہنماؤں کے انتخاب کے مرحلے سے گزرنے کے بعد جمہوری اعتبار کے مرحلے میں داخل ہوئے یا مایوسی ہمارا مقدر ٹھہری؟ کیا ہم نے پاکستان کو بحیثیت ایک اکائی کے قبول کیا؟ اور اگر کیا تو کیا ہم رنگ، نسل، فرقہ، مذہب اور علاقے کے تعصب سے باہر آسکے؟ اگر ہم دیانت داری سے ان تمام سوالوں کا جواب تلاشیں تو ہمیں خود سے آج کے بگڑتے منظر نامے سے متعلقہ کئی سلگتے سوالوں کا سامنا ہو گا۔

یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ کسی بھی ملک میں اقلیت ہمیشہ محتاط ہوتی ہے وہ عدم تحفظ کے واہمے کا شکار رہتی ہے اور شکوک و شبہات کی نظر سے ہر چیز کو دیکھتی ہے۔ جبکہ پر امن معاشروں میں اکثریت ہمیشہ کشادہ دل ہوتی ہے اور وہ اقلیت کو عدم تحفظ کے واہمے کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ یہی نہیں بلکہ وہ دھرتی کے مشترک رشتے کی اساس کا پاس کرتے ہوئے اپنے حسنِ سلوک سے اقلیت کو ملک کی تعمیر و ترقی میں ایک فعال رکن بنانے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن صد افسوس پاکستان میں مذہبی سطح پہ اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا تعصب پہ مبنی انسانیت سوز سلوک آج تک جاری ہے۔ گرجا گھر، مندر اور ہسپتالوں میں بم دھماکے، نفرت، تشدد، اشتعال انگیزی، سیاسی حقوق کا فقدان اور قتل و غارت جیسے سفاک رویوں کو جب ہم قوم اور ملت کے نام پہ روا رکھتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ نفرتوں کی فصل کا حاصل تشدد اور اذیت کے سوا کچھ نہیں۔

ہم آج بھی اپنے بچوں کو شعور کا جو سب سے پہلا درس دیتے ہیں وہ مذہب اور ذات کے نام پہ قائم کیا وہ احساسِ تفاخر ہوتا ہے جس کے زعم میں وہ ساری عمر مبتلا رہتا ہے اور دوسرے مذاہب اور ذات کے لوگوں کو اپنے سامنے ہیچ سمجھتا ہے۔ ہم اسے ملک سے محبت بھی سکھاتے ہیں تو سرحد پار نفرتوں کے تقابل سے۔ ہم ننھے معصوم ذہنوں کی تربیت اور کردار سازی کا خمیر جہاں اپنے مذہب کی محبت سے اٹھاتے ہیں وہاں ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب اور فرقوں سے منسوب تعصب کے نقوش بھی ان ننھے ذہنوں پہ کندہ کرتے جاتے ہیں۔ ہم انھیں ریاستی حدود کی اندرونی و بیرونی متنفر و متعصب فضا اور بد امنی کی پھیلتی آگ تو دکھاتے ہیں لیکن امن کی بارش برسانے کی تربیت ہرگز نہیں کرتے۔

ایک مثالی جمہوریت میں ریاست کے کسی فرد، ادارے یا گروہ کے ساتھ مذہب عقیدے یا فرقے کی بنیاد پہ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک ہمیشہ قابلِ گرفت ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جمہوریت ریاست کے اندرونی انتشار، بد امنی، مذہبی منافقت اورفرقہ واریت کی زد میں آکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ملک میں انتہا پسندی دہشت گردی اور بیرونی طاقتوں کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے لگتی ہے اور اپنے خوف سے ریاستی امن و امان کو ڈھانپ دیتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کبھی ان سیاسی، سماجی، مذہبی، لسانی، علاقائی یا فرقہ وارانہ تعصبات کے امتیازات سے باہر آسکیں گے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر ضرورت ہے کہ ہم سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات میں انفرادی اور اجتماعی سطح پہ اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ ہمیں اپنے ریاستی امور کو مذہبی اور فرقہ ورانہ تعصب سے بالاتر ہو کر دیکھنا ہوگا۔ ہمیں فرد اور معاشرے کے درمیان ایک پر امن اور خوشحال تعلق کو استوار کرنے کے لئے سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا جس کے لئے ہمیں ذات پات، مذہب، نسل اور فرقے کے امتیازی دائروں کو توڑنا ہو گا اور اگر یہ سب کرنے کی کشادگی ہم اپنے دل میں نہ پائیں تو پھر ہمیں اپنے پرچم سے سفید رنگ ہمیشہ کے لئے مٹا دینا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments