کشمیرقومی شاہرا ہ پربندش :سفری عصبیت کی بدترین مثال


اسکے علاوہ تجارت پیشہ لوگوں کو زبردست مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس پابندی سے کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جو پہلے ہی کشمیر کی کی بگڑی ہوئی معیشت کے لئے مزید بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے ، جبکہ سرینگر جموں شاہراہ کی حالت انتہائی خراب ہے اور موسم کی معمولی خرابی کی وجہ سے کئی کئی دونوں تک شاہراہ پر ٹریفک کی آمد و رفت بند ہونا ایک معمول بن گیا ہے ۔

ایک سابق فوجی سربراہ جنرل وید پرکاش ملک نے بھی فیصلے کو ’’احمقا نہ ‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا فیصلہ عوام کے دلوں کو جیتنے کے بنیادی ایجنڈا کی خلاف ورزی ہے، جو کبھی بھی سود مند نہیں ہوسکتا۔مگر مودی حکومت جس طرح انتخابات میں کشمیریوں پر سختی اور پاکستان کا استعمال کرکے قوم پرستی کا ہواکھڑا کرکے ووٹ بٹورنے میں مصروف ہے، شاید ہی کوئی اس سابق فوجی افسر کی بات پر دھیان دیگا۔

ویسے بھی دہائیوں سے کشمیر میں عوام کو ہی سیکورٹی فورسز کے قافلوں کو تحفظ دینے کیلئے زبردستی ڈیوٹی پر لگایا جاتارہا ہے۔ یہ وبا خاص طور پر 1990ء سے2003ء تک شمالی کشمیر کے گاوٗں و قصبوں میں عام تھی۔ مجھے یاد ہے کہ دیہاتوں میں حتیٰ کہ معزز اور معمر افراد کو بھی رات کے تین بجے ہاتھوں میں لالٹین لیکر مقررہ مقام پر جمع ہونا پڑتا تھا۔

گائوں کے ایک سرے سے شروع کرکے ہر گھر سے ایک فرد کو اپنی باری پر حاضر ہوناپڑتاتھا۔ گائوں جس قدر بڑا یا چھوٹا ہو تا تھا اسی قدر دیہی باشندوں کی باری جلدی یا دیر سے آیا کرتی تھی۔اس آپریشن کا نام ’’کانوائے ڈیوٹی‘‘ رکھا گیا تھا۔

پروگرام کے مطابق آدھی رات یا صبح کے تین بجے پہلے سے مقررہ مختلف مقامات پر سڑک کنارے لگ بھگ 200افراد ایک ہاتھ میں لمبا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لے کر فوجی پارٹی کا انتظار کرتے تھے۔کشمیر اسمبلی کے ممبر انجینئر رشید، جنہیں خود یہ کانوائے ڈیوٹی دینے کیلئے 13سال تک مجبور کیا گیا، کہتے ہیں کہ لنگیٹ تحصیل میں واقع ان کے گائوں کا کوئی بھی گھرسوائے سرکاری بندوق برداروںکے ’کانوائے ڈیوٹی‘ سے مستثنیٰ نہیں تھا۔

سڑک کے دونوں طرف گندی نالی ہو یا کوئی کھیت کھلیان ، جنگل ہو یا قبرستان ،باریک بینی سے کھوج لگانا پڑتا تھا کہ کہیں جنگجوئوں نے بارودی سرنگ تونہیں بچھا رکھی۔ ایسا شاید دنیا کے کسی بھی خطہ میں نہیں ہوتا ہو گا کہ وردی پوش جس کا کام ہرحال میں شہریوں کی حفاظت کرناہوتاہے ، اپنی حفاظت کے لئے اْلٹا بدنصیب شہریوں کو ہی اپنے آگے انسانی ڈھال کے طور استعمال کرے۔

بہرحال ہرگائوں کی ’کانوائے ڈیوٹی‘ والا قافلہ ہتھیار بند پارٹی کو اپنے اگلے نزدیک ترین گائوں تک رہنمائی کرتا اور پھر وہاں اْس گائوں کا بدنصیب قافلہ اہلکاروں کی حفاظت کے لئے ذمہ داری سنبھال لیتا۔ اس طرح یہ سلسلہ لگ بھگ 20دیہی بستیوں سے ہوتا ہوا علاقے کے آخری گائوں تک جاملتا تھا۔ ۔ فوجی کانوائے جونہی گزرجاتا تودیہاتیوں کی جان میں جان آتی۔

ان کی شامت تب آتی جب کبھی کانوائے راستے میں کسی حادثے یا جنگجوئوں کے حملے کی وجہ سے دیر تک نمودار نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ برلب سڑک کنارے وہ لرزتے ہاتھ، اللہ سے بس کانوائے کے صحیح سلامت گذرنے کی تمنا کرتے ، تاکہ ان کی گلو خلاصی ہوجائے۔ اگر بانہال سے لے کر ہندوارہ تک کسی جگہ آرمی کانوائے کے اوپر کوئی معمولی سا بھی پتھر پھینکا جاتا تھا تو نزلہ ان دیہاتیوں پر گرایا جاتا تھا۔

اندازہ لگائیے کہ اگر کبھی کانوائے شام گئے دیر تک شکل نہ دکھاتی تو اس دن جن گھرانوں کا کوئی فرد ’کانوائے ڈیوٹی‘ پر تعینات ہوتا اس کے اہل خانہ پر کیا گزرتی تھی ۔ ڈیوٹی بس یہیں ختم نہیں ہوتی تھی۔ واپسی پر اس گروپ کو اپنے گائوں کی فوجی پوسٹ پر حاضری دینا ہوتی تھی۔ اس کے بعد اگر متعلقہ فوجی افسر کا موڈ ٹھیک ٹھاک ہوتا اور گرد ونوا ح میں جنگجوئوں کی موجودگی کا خطرہ بھی نہ ہوتا تو بیگار پر گئے بدنصیب دیہاتیوں کو صبح ناشتہ کرنے کیلئے آدھے گھنٹے کیلئے گھرجانے کی اجازت ملتی تھی، مگر کیمپ میں اپنے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوتے تھے۔

ناشتے کے بعد کوئی حوالدار لوگوں کو مختلف ٹکریوں میں بانٹ کر مختلف کام انجام دینے کے لئے ڈیپوٹ کردیتا تھا۔ اگر علاقے میں جنگجوئوں کی موجودگی یا ان کے حملے کاذرّہ بھر بھی خدشہ ہوتا تو پھر گائوں کے آرمی پوسٹ پر موجود جوانوں کے اردگرد پورے دن چاق وچوبند رہ کر پہراہ دینا پڑتاتھا۔

جموں وکشمیر کے طول وعرض میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ایسے لاتعداد المناک واقعات رونما ہوئے ہیں جنہیں بیان کرنے یا ضبط تحریر میں لانے سے زبان اورقلم کوخوف کی آندھیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، عالمی میڈیا تو دور کی بات، بھارت اور پاکستان کے میڈیا میں بھی کشمیر میں شورش کے حوالے سے اور دیہاتو ں میں عام آبادی کے کرب پر بہت کم رپورٹنگ ہوئی ہے۔

یہ خط بہت سے سربستہ رازوں کو اگلنے کیلئے کسی تفتیشی مصنف و صحافی کا منتظر ہے۔ ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد سیکورٹی فورسز کو بدنام کرنا ہے نہ ہی ان کے حوصلوںکو پست کر نا ہے۔ جموں اورکشمیر کے دیرینہ حل طلب مسئلے کے حوالے سے جو قہر ڈھائے گئے ہیں، اس کی زیادہ تر ذمہ داری سیاسی قیادت پر ہے۔

فورسز نے سیاسی قیادت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے کشمیر ی عوام کے ساتھ جو کچھ بھی کیا، اس کے نزدیک وہ قومی مفادکے لئے کرنا ناگزیر تھا۔بھارت کی موجودہ قیادت بھی فی الحال کشمیر میں ظلم و جبر کے ہتھیار کا استعمال کرکے اسکو انتخابات میں بھنارہی ہے۔ کشمیریو ں کو اپنے ہی خطہ میں اپنی ہی راہوں سے بیگانہ کروانا ، سفری عصبیت کا بدترین مظاہرہ ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).