بلقیس بانو ریپ کیس!


یہ مارچ 2002 کا واقعہ ہے جب مودی جی بھارتی گجرات کے مکھ منتری ہوا کرتے تھے۔ مودی جی ویسے تو اپنے بہت سے کارناموں کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن ان کی ’نیک نامی‘ کی اصل وجہ ’گجرات فسادات‘ ہیں، ان فسادات نے انہیں ایسی شہرت بخشی کہ پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان فسادات میں سینکڑوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور درجنوں عورتیں ریپ ہوئیں، ان عورتوں میں سے ایک بلقیس بانو بھی تھی۔ فسادات کے دوران بلقیس بانو کے گھر کے سترہ افراد کسی محفوظ مقام پر پناہ لینے کی غرض سے اپنے علاقے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ تلواروں اور لاٹھیوں سے لیس تیس افراد کے ایک جتھے نے ان پر ہلہ بول دیا اور بلقیس بانو، جو اس وقت اکیس برس کی حاملہ تھی، کا گینگ ریپ کر دیا۔

یہی نہیں بلکہ ان درندوں نے بلقیس کی تین سال کی بچی سمیت اس کے سات گھر والوں کو بھی لاٹھیوں اور تلواروں سے مار مارکر ہلاک کر دیا۔ بلقیس بانو اس اندوہناک واقعے کی ایف آئی آر درج کرواتی ہے جس کے بعد شروع ہوتی ہے ایک طویل قانونی جنگ۔ بلقیس عدالت کے سامنے ان تمام مجرمان کی شناخت کرتی ہے اور عدالت کو بتاتی ہے کہ یہ لوگ اس کے ہمسائے میں رہتے تھے اور اس کے گھر والوں سے دودھ خریدا کرتے تھے۔ بھارتی سینٹرل بیورو آف انٹیلی جنس کی تشکیل کردہ خصوصی عدالت، بلقیس کے بیان اور دیگر ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں، چھ سال کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ، جنوری 2008 میں اس مقدمے کے گیارہ مجرمان کو عمر قید کی سزا سنا دیتی ہے۔

2017 میں بمبئی ہائی کورٹ اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اسے برقرار رکھتی ہے۔ لیکن پھر ایک عجیب واقعہ ہوتا ہے۔ پندرہ برس جیل میں گزارنے کے بعد ، مجرمان میں سے ایک شخص، بھارتی عدالت عظمی ٰ سے رجوع کرتا ہے اور سزا میں تخفیف کی درخواست کرتا ہے۔ اس درخواست پر سپریم کورٹ، گجرات حکومت کو حکم دیتی ہے کہ مجرمان کی درخواست کی پڑتال کی جائے کیونکہ جرم گجرات میں ہوا تھا۔ گجرات کی سرکار اس کام کے لیے ایک ’ریویو کمیٹی‘ تشکیل دیتی ہے، یہ کمیٹی متفقہ طور پر سرکار کو تجویز دیتی ہے کہ تمام گیارہ مجرمان کی سزا میں تخفیف کر کے انہیں رہا کر دیا جائے اور یوں 15 اگست 2022 کو بھارت کے پچھہترویں یوم آزادی کے موقع پر ، گجرات حکومت تمام مجرمان کو جیل سے رہا کر دیتی ہے۔

گجرات فسادات میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں یوں مجرمان کو رہا کر دیا گیا ہو۔ ان گیارہ انسان نما درندوں کی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، شکل و صورت سے یہ لوگ نارمل انسان لگتے ہیں، کسی نے پینٹ شرٹ پہنی ہے تو کسی نے ماتھے پر تلک لگا رکھا ہے، تصاویر میں ان کے گھر والے رہائی کی خوشی میں انہیں نہ صرف پھولوں کے ہار پہنا رہے ہیں بلکہ گینگ ریپ کا ایک مجرم یہ کہتا ہوا بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ آج میں اپنی رہائی پر بہت خوش ہوں اور سرکار کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اس سارے عرصے میں میرا پریوار اور پتنی میرے ساتھ کھڑے رہے۔ اور واقعی یہ بات کرتے ہوئے اس ریپسٹ اور قاتل کی بیوی اور بیٹی اس کے ساتھ کھڑے تھے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس دنیا کا نظام اگر درندوں کے ہاتھ میں ہوتا تو کیا یہ دنیا اس سے بدتر ہوتی جتنی آج ہے؟ انسان اپنی جس عقل پر اتراتا ہے کیا واقعی اس علم و دانش نے انسان کو دیگر مخلوقات کے مقابلے میں ارفع بنا یا ہے؟ اگر انسان کا ارتقا نہ ہوتا اور وہ باقی جانوروں کی طرح ہی زمین پر رہتا تو کیا اس صورت میں یہ دنیا، جنگل کے قانون پر چلنے کے باوجود، زیادہ بہتر حالت میں نہ ہوتی؟ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے انسان تہذیب یافتہ ہو کر زیادہ خونخوار ہو گیا ہے۔

اپنے علم کی بدولت انسان نے ترقی ضرور کی ہے مگر اس ترقی نے نہ صرف کرہ ارض کو برباد کیا ہے بلکہ انسانیت کو پستی کے گڑھے میں لا پھینکاہے۔ اگر یہ دنیا ویسی ہی رہتی جیسی ایک لاکھ برس پہلے تھی تو شاید کوئی درندہ بھی کسی انسان کے ساتھ وہ سلوک نہ کرتا جو ’شائننگ انڈیا‘ میں بلقیس بانو کے ساتھ ہوا۔ ہم اکثر ہندوستان کی ترقی کے گن گاتے ہیں، اس کی مضبوط معیشت کی مثالیں دیتے ہیں اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ان بھارتی سی ای اوز کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو مختلف کمپنیوں کی سربراہی کر رہے ہیں مگر اسی ہندوستان کا ایک گھناؤنا چہرہ یہ بلقیس بانو کیس ہے جو اس قدر مکروہ ہے کہ تمام سی ای اوز کی کروڑوں ڈالر کی تنخواہ مل کر بھی یہ کالک ہندوستان کے چہرے سے صاف نہیں کر سکتی۔

جی ہاں، یہاں کچھ لوگ مثال دیں گے کہ ہمارے پاکستان میں بھی ایسے ریپ ہوتے ہیں، یہاں بھی قاتل دندناتے پھرتے ہیں، اور صرف پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں جرائم ہوتے ہیں تو ہندوستان کے اتنے لتے کیوں لیے جائیں؟ اس لیے کہ اس واقعے میں گیارہ مجرمان پر ریپ اور قتل کا جرم ثابت ہوا، وہ لوگ جیل گئے اور اس کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا کے توسط سے ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔ یہ فرق ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے جن جج صاحبان کی ناک کے نیچے گجرات سرکار نے گیارہ مجرمان کو رہا کیا، وہ تمام جج صاحبان یقیناً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے، سب کے پاس دنیا کی بہترین جامعات کی سندیں ہوں گی، قانون اور انصاف کے شعبوں میں کئی دہائیوں کا تجربہ ہو گا، وہ عالمی تقریبات میں انصاف کی فراہمی، قانون کی بالا دستی اور اخلاقی اقدار پر بھاشن دیتے ہوں گے، اور یقیناً گجرات سرکار کی بنائی ہوئی کمیٹی کے اراکین بھی معاشرے کے پڑھے لکھے اور ’مہذب‘ افراد ہوں گے، خود جس افسر نے ان تمام مجرمان کی رہائی کا فرمان جاری کیا ہو گا وہ بھی آئی سی ایس ہو گا، یہ تمام لوگ ایک گھناؤنے جرم میں ملوث مجرموں کو رہا کرنے کے بعد شام کو اپنے گھر گئے ہوں گے، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رات کا کھانا کھایا ہو گا، کوئی فلم دیکھی ہوگی، اچھی سی آئس کریم کھائی ہوگی اور پھر آرام دہ بستر پر سوئے بھی ہوں گے۔

بالکل اسی طرح جیسے نازی جرمنی میں ہٹلر کے حامی بھی بظاہر نارمل انسان تھے، بیوی بچوں والے تھے، مگر وہ اپنے مخالفین کو گیس چیمبرز میں ہلاک کرنے سے نہیں چوکتے تھے، انہیں لگتا تھا جیسے یہ لوگ ان کی طرح کے انسان نہیں ہیں لہذا اس سلوک کے مستحق نہیں ہوسکتے جو انسانوں سے روا رکھا جاتا ہے ۔ ’ہندتوا‘ کی بھی یہی سوچ ہے، ان کے خیال میں بھارتی مسلمان ان بنیادی حقوق کے حقدار نہیں جو ہندوستانی آئین میں لکھے ہیں۔ اگر کسی کو میری اس بات میں غلو کا شائبہ لگے تو وہ بی جے پی کے ہارورڈ تعلیم یافتہ لیڈر سبرا منیم سوامی کا انٹرویو دیکھ لے جس میں اس انسان نما شخص نے کہا ہے کہ بھارتی مسلمان برابر کے شہری نہیں!

بلقیس بانو کیس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ریپ اور قتل کے مجرمان وہ لوگ ہیں جو سالہا سال سے بلقیس بانو کے ہمسائے تھے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا، اس وقت جو فسادات ہوئے ان میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں نے ایک دوسرے کی ماؤں بہنوں کے ساتھ یہی کچھ کیا تھا حالانکہ وہ ایک ہی شہر، ایک ہی گاؤں، ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور ہمسائے کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھتے تھے۔ ’بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘ محاورہ اسی زمانے کا ہے۔

مگر فسادات میں ان کے اندر کا حیوان جاگ اٹھا اور انہوں ایک دوسرے کی سانجھی عزتیں پامال کر دیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ’ان کے اندر کا حیوان جاگ اٹھا‘ تو شاید خود کو بطور انسان ایک اعلیٰ منصب پر فائز کرتے ہوئے حیوانوں کو پست درجہ دے دیتے ہیں حالانکہ جانور بھی ایک دوسرے کا یوں ریپ نہیں کرتے۔ یہ اعزاز ہزاروں برس سے صرف انسان کے پاس ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments