آسام انتخابات: 40 لاکھ باشندوں کی شہریت کا سوال


انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں جمعرات کو دوسرے مرحلے کی پولنگ میں پانچ پارلیمانی حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ریاست کے 40 لاکھ سے زیادہ ووٹروں کو شہریت کی فہرست سے باہر رکھا گیا ہے تاہم انھیں رواں پارلیمانی انتخابات میں ووٹ دینے کی اجازت دی گئی ہے۔

ان باشندوں کی شہریت کا حتمی فیصلہ آئندہ چند مہینوں میں ہونےوالا ہے۔ شہریت کا سوال آسام کے انتخابات کا سب سے اہم اور انتہائی حساس سوال ہے۔

کرائی بل گاؤں کے 20 سالہ رفیق الاسلام قانون میں گریجویشن کر رہے ہیں۔ آسام میں غیرقانونی بنگلہ دیشی باشندوں کی شناخت کے لیے شہریوں کی جو عبوری فہرست، این آر سی جاری کی گئی ہے اس میں ان کے خاندان کے سبھی لوگوں کا نام ہے لیکن رفیق اور ان کی ماں کا نام اس میں شامل نہیں ہے۔

رفیق کہتے ہیں کہ وہ اس الیکشن میں ووٹ دینے جا رہے ہیں لیکن وہ آئندہ الیکشن میں ووٹ دے پائیں گے یا نہیں انھیں نہیں معلوم۔ ‘میں تو اسی گاؤں کا ہوں اسی دیش کا شہری ہوں۔ اگر حتمی این آر سی میں ہمارا نام نہیں آیا تو کیا ہوگا؟’

یہ بھی پڑھیے

انڈیا:مشرقی ریاستوں میں پناہ گزیں مخالف مظاہرے

انڈیا میں انسانی المیے پر بھی سیاست

آسام کے مسلمانوں کے ساتھ برما کے روہنگیا جیسا سلوک؟

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پڑوس کے آٹھ گاؤں کی 16 ہزار آبادی میں چار ہزار سے زیادہ باشندوں کے نام شہریت سے باہر رکھے گئے ہیں۔ ان میں گریجوشین کی طالبہ 18 سالہ سمیرالنسا بھی شامل ہیں ۔ وہ کہتی ہیں: ‘میرا نام پہلی لسٹ میں تھا لیکن دوسری لسٹ میں میرا نام کاٹ دیا گیا۔ مجھے نوٹس ملا ہے کہ میں ‘ڈکلیرڈ فارینر’ ہوں۔ میں بہت تناؤ میں میں ہوں کہ میرا کیا ہوگا۔ اس تناؤ میں میرا امتحان خراب ہو گیا ہے۔’

رفیق اور سمیر النسا جیسے 40 لاکھ باشندوں کے نام شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں۔ اس میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ انھیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے اضافی دستاویزات کے ساتھ ایک اور موقع دیا گیا ہے۔ ریاست کے تمام شہریوں کی حتمی فہرست جولائی میں جاری کی جائے گی۔

آسام کے وزیر قانون اور تعلیم سدھارتھ بھٹا چاریہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہندو بنگلہ دیش میں سماجی اقتصادی اور مذہبی تفریق اور ظلم کے سبب یہاں آئے۔ لیکن مسلمانوں کو پاکستان یا بنگلہ دیش میں کسی تفریق کا سامنا نہیں ہے وہ صرف اقتصادی بہتری کے لیے یہاں آئے۔ جب بنگلہ دیش ان کی فکر نہیں کرتا تو ہم ان کی فکر کیوں کریں۔ ان لوگوں کے لیے ہماری کوئی قانونی، اخلاقی اور آئینی ذمے داری نہیں ہے۔’

بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا ہے کہ وہ غیر قانونی ہندو، سکھ، جین اور بودھ مائگرینٹس کو شہریت دے گی۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے ایک انتخابی تقریر میں غیر قانونی مسلم تارکین وطن کو ‘دیمک ‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘غیر ملکی قرار پانے والے ہندوؤں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں ہم شہریت دیں گے۔ اور جو گھس پیٹھیے (مسلم درانداز) ہیں انھیں ہم خلیج بنگال میں پھینک دیں گے۔’

بی جے پی نے اس سلسلے میں گذشتہ پارلیمنٹ میں شہریت کا ایک ترمیمی بل پیش کیا تھا جس میں مسلمانوں کو چھوڑ کر باقی سبھی مائگرینٹس اور پناہ گزینوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے۔ اس نے اس بل کو دوبارہ لانے کا وعدہ کیا ہے۔

گوہاٹی کے وکیل اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ امن ودود کا کہنا ہے کہ این ار سی کا اصل مقصد انڈین شہریوں اور غیر ملکیوں کی شناخت کرنا تھا ۔لیکن بی جے پی کی حکومت نے اسے ایک مسلم مخالف حربے میں تبدیل کر دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘آر ایس ایس مسلم کو دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتی تھی۔ اب اس کو این آرسی کی شکل میں ایک ایسا ہتھیار مل گیا ہے جوشہریت سے خارج کرنے کا ڈیوائس ہے۔ بی جے پی اسے ایک مسلم مخالف ٹول کے طور پر استمعال کرنا چاہتی ہے جو کہ سپریم کورٹ کی گائد لائنز کے منافی ہے۔’

آسام میں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ امن ودود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘اگر فری اور فیئر این آرسی ہوتا ہے تو میرے خیال میں زیادہ لوگ شہریت کی فہرست سے خارج نہیں ہونگے۔ اگر یہ منصفانہ نہیں ہوا تو بہت سے شہریوں کے نام بھی اس میں نہیں آئیں گے جس کا ہمیں ڈر ہے کہ یہاں کی حکومت دانستہ طور پر بہت سے لوگوں کوباہر رکھے گی۔’

حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کا کہنا ہے کہ بی جے پی ریاست کے اس حساس اور انسانی مسئلے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ بی جے پی کے مجوزہ شہریت کے ترمیمی بل کی مخالفت کرے گی۔

آسام میں انتخابات بے یقینیوں اور انجانے خوف کی فضا میں ہو رہے ہیں۔ آئندہ چند مہینوں میں ریاست کے 40 لاکھ باشندوں کی شہریت کا فیصلہ ہونا ہے۔ ان کے مستقبل کا فیصلہ بہت حد تک پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر ٹکا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp