رشوت یا پراسس


آج صبح سے ایک کام کے سلسلے میں سرکاری آفس کے چکر کاٹ رہا تھا۔ کوشش تھی کہ کام کا تمام پراسس مکمل کروں۔ کیونکہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ اپنی سستی اور نا اہلی کی وجہ سے کسی کام کا پراسس مکمل کرتے نہیں، شارٹ کٹ راستے ڈھونڈتے ہیں اور دوسری طرف بیٹھا افسر بھی پیسوں کو دیکھتے ہوئے بیچ بچاؤ کی را ہ پر آمادہ ہوجاتاہے۔ اس طرح رشوت جیسی لعنت ناسور نہیں بلکہ ضرورت اور عام چیز دکھائی دیتی ہے اور اس کا سہارا عام ہوجاتاہے۔

اس لئے آج اس بات کا تو پختہ عزم تھا کہ بیچ کا راستہ نہیں ڈھونڈنا بلکہ پراسس کو مکمل کرنا ہے۔ پراسس کو مکمل کرتے ہوئے کافی دشواری ہوئی، کئی جگہوں کے چکر لگانے پڑے اور ہر جگہ خود آنا جانا، رش کا سامنا کرنا خاصہ مشکل اور صبر آزما کام تھا۔ پراسس کو مکمل کرتے ہوئے میں تقریبا سارا دن گزرگیا، آخر میں جب ایک افسر کے پاس فائنل رسید جمع کروانے لگا تو اس نے پانچ سو کی رسید کا ہزار مانگا۔ میں نے کچھ احتجاج کرنا چاہا لیکن وہ اس قدر بہادر یا بے شرم واقع ہوا تھا کہ اس کو لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔

اس نے اضافی پانچ سو اپنا حق قرار دیتے ہوئے یوں مانگا کہ جیسے مجھ پر اس کو دینا ضروری ہو۔ میں نے جب بات زیادہ بڑھائی تو اس نے کام میں مزید تاخیر کی دھمکی دی اور کل کو آنے کا کہا۔ روز مرہ کی مصروفیات میں پورا ایک دن آگے اس کام میں ضائع ہوچکا تھا، مزید وقت نکالنا اور پھر اگلے دن بھی نہ جانے کیا ہو؟ میں نے اس کو اضافی پانچ سو دیے کام نکلوایا۔ لیکن اس پر احتجا ج اور ہائی اتھارٹیز کو بات پہچانا ضروری سمجھا۔

کیونکہ یہ میری ذمہ داری تھی کہ اس پر خاموش نہ رہوں۔ جانتے بوجھتے میں خاموش رہنا، اس چیز کے چلن کو لازمی بات ہے مزید بڑھاوا دے گا۔ اس لئے اپنی ذات کے لئے نہ سہی قومی مفاد کے لئے اس افسر کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا ضروری سمجھا۔ قومی مفاد اور آئندہ نسلوں کے مستقبل کی عظیم الشان ذمہ دار ی کو نبھانے کے لئے میں دفتر سے باہر نکلا اور سامنے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر خود کو کافی کوسا، کہ ایک افسر دو منٹ میں اضافی پانچ سو ڈکار گیا اور تم صبح سے خوار ہورہے ہو لیکن کھانے پینے کی کسی چیز کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیا۔ میں نے تین چار سو روپیہ اپنے پر لگایا اور مطمئن ہوگیا کہ میں نے کرپشن کا کچھ نہ کچھ بدلہ لے لیا اور اس کے بعد سکون سے گھر چل دیا۔

اس کے بعد جب گھر آیا تو ایک دوست سے پتہ چلا کہ اس نے وہی کام جس کا پراسس مکمل کرنے میں میں نے سارادن لگایا تھا بغیر پراسس مکمل کیے مجھ سے آدھے پیسوں میں کروالیا۔ میں بہت حیران ہوا، اور پراسس سسٹم سے توبہ کی ٹھانی۔ لیکن کیا میں درست ہوں؟ یقینا نہیں، کیونکہ کسی بھی کام میں بیچ کی راہ کو چھوڑ کر اس کے پراسس کو مکمل کرنا نظام کو بہتر بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔ نظام بلاشبہ کتنا ہی دیر سے بہتری کی طرف جائے لیکن جب ایک مرتبہ ہم قانون پر عمل در آمد کرنے کا پختہ عزم کرلیں گے تو وہ دن دور نہیں جب رشوت سسٹم ختم ہوگا اور قانون کی حکومت ہوگی۔ نظام کو درست کرنے کے لئے کڑوا گھونٹ بہت ضروری ہے اور اس کا ہمیں عادی ہونا ہی ہوگا۔ میں اپنی کمزور ی اور سستی کی وجہ سے کرپشن کے خلاف کچھ نہیں کرسکا لیکن آواز اٹھا سکتا ہوں، سو وہ اٹھا دی اور آپ تک پہنچا رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).