معاہدہ ورسائے، کارٹون اور مستقبل


پہلی جنگ عظیم کے وقت برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج، فرانس کے صدر جارج کلیمانسو اور امریکا کے صدر ووڈرو ولسن تھے ان ممالک کے اتحاد کو مشترکہ طور پر اتحادی ممالک کا نام دیا گیا تھا۔ 28 جون 1919 ء کو پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جرمنی کی شکست پر جرمنی اور اتحادی ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا۔ جس کا نام معاہدۂ ورسائے ( Treaty of Versailles) کہتے ہیں۔ اس معاہدے کی رو سے اتحادی ممالک نے جنگ کی تمام تر ذمہ داری جرمنی پر ڈالی گئی۔

اس معاہدے میں جرمنی پر کڑی شرائط پر مشتمل ایک سخت گیر معاہدہ تھونپ دیا گیا تھا۔ جب کہ اسی جنگ میں شامل جرمنی کی دیگر حلیف ریاستوں کے ساتھ الگ نوعیت کے معاہدے طے ہوے۔ معاہدے میں جنگ کی ذمّہ داری کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی کڑی شرائط شامل کی گئیں جن میں سے جرمنی کا جنگ کے شروعات کی مکمل ذمہ داری قبول کرنا، عسکری لحاظہ سے غیر مسلح ہونا، کئی علاقوں سے دستبردار ہونا اور متعدد ممالک کو تاوانِ جنگ کی رقم ادا کرنا شامل تھے۔

اس زر تلافی کی کل رقم 1921 ء میں 132 ارب مارک ( 31.5 ارب ڈالر یا 6.6 ارب پاؤنڈ) تھی۔ اگر اس معاہدے کو مزید تفصیل سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس معاہدے کی رو سے جرمنی کو اپنے 13 فیصد علاقے، 12 فیصد آبادی، 48 فیصد لوہے کی کانوں اور دس فیصد کوئلے کی کانوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ تاوان جنگ کی رقم اس کے علاوہ تھی۔ جرمنی کی فوج کم کر کے ایک لاکھ افراد پر مشتمل کر دی گئی۔ اس کی نیوی میں صرف 36 جہاز رہ گئے۔

آبدوز رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ فضائیہ بھی سرے سے ختم کر دی گئی۔ اس بات سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا کہ اس معاہدے کی کئی شرائط پر عمل نہیں ہوا جن میں سے ایک اہم شرط جرمنی کو مکمل طور پر عسکری لحاظ سے غیر مسلح کرنا تھا۔ اس معاہدے کا ایک مقصد جرمنی کو کمزور کرنا تھا تاکہ وہ مستقبل میں کوئی بھی جنگ شروع نہ کر سکے مگر بدقسمتی سے اسی شرط پر عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا اور یہی وجہ دوسری جنگ عظیم کے آغاز کی وجوہات میں سے ایک وجہ تھی۔

اب کچھ ذکر William Henry Dyson (September 1880۔ 21 January 1938)  کے اس کارٹون کا کرتے ہیں جس کا عنوان ”Peace and future cannon fodder“ ہے۔ یہ کارٹون 13 مئی 1919 کو برطانیہ کے اخبار ڈیلی ہیرالڈ میں شائع ہوا تھا۔ اس کارٹون میں چار بڑی طاقتوں برطانیہ، فرانس، اٹلی اور امریکہ کے سربراہان کو ایک اہم میٹنگ کے بعد جاتے ہوئے دیکھایا گیا ہے جبکے ایک بے لباس چھوٹا بچہ دیوار کی طرف منہ کر کے رو رہا ہے۔ اس کارٹون میں روتے ہوئے چھوٹے بچے کو جرمنی سے تشبیہ دی گئی ہے۔

اس موقع پر اٹلی کے سربراہ جس کا عرف عام ٹائگر تھا تعجب سے پوچھتا ہے کہ مجھے کسی کے رونے کی آواز آرہی ہے۔ اس کارٹون میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اس معاہدے کو جرمنی پر زبردستی تھونپ دیا گیا ہے اور وہ اس معاہدے سے ناخوش ہے۔ اس کارٹون میں چھوٹے بچے کا بے لباس ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جرمنی کے ساتھ ذلت آمیز شرائط پر مبنی معاہدے کے ساتھ بے آبرو بھی کیا جا رہا ہے اور اس کی سنی نہیں جارہی ہے۔ اس کارٹون کے عنوان ”Peace and future cannon fodder“ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ کس طرح سے یہ ذلت آمیز معاہدے مستقبل میں توپوں کا ایندھن بنے گا اور دنیا کے لیے ایک بڑی جنگ کا سبب بنے گا۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ کارٹونسٹ William Henry Dyson کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی اور تقریباً 20 سال بعد دنیا ایک بار پھر سے تباہی سے دوچار ہوئی۔ اسی معاہدے پر دسمبر 1919 میں ایک ماہر معاشیات John Maynard Keynes نے بھی اپنی ایک تنقیدی تحریر جس کا عنوان ”امن کے معاشی نتائج“ The Economic Consequences of the Peace میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور مزید تفصیل میں لکھا کہ اس طرح کی کڑی شرائط سے جرمنی معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا جس سے یورپ اور دنیا معاشی اور سیاسی نظام پر برے اثرات مرتب ہوں گے جو مزید امن خراب ہونے کا سبب بنے گا۔

بدقسمتی سے بڑی طاقتوں کے بڑے رہبروں نے ان کارٹونسٹ اور ماہر معاشیات کی باتوں پر توجہ نہ دی اور ان پر کسی قسم کا غور وفکر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج بھی شاید کوئی کارٹون بنا کر مستقبل کے کسی حادثے کی طرف اشارہ کر رہا ہو مگر کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ شاید آج بھی کوئی ماہر معاشیات کسی بڑی معاشی تباہی کا عندیہ دے رہا ہو مگر کوئی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ شاید آج بھی کوئی شاعر اپنے کسی شعر میں کسی آتش فشانی لاوے کا ذکر کر رہا ہوں مگر سنے والا کوئی نہیں ہے۔ شاید آج بھی کوئی موسیقار غم میں ڈوبا کوئی راگ بجا رہا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).