سوہنی کا مچھلی کا آرڈر اور مہینوال کی دولہا بننے کی چاہ


روایت ہے کہ بخارے کے بزنس ٹائیکون کا بیٹا مرزاعزت بیگ نامی تھا۔ ساری زندگی اس نے کوئی کام کاج نہیں کیا بلکہ باپ کی دولت پر ہی عیش کرتا رہا۔ یہ حال دیکھ کر باپ نے اسے ہندوستان کے بزنس ٹرپ پر بھیج دیا۔ اس نے سامان تجارت اور اپنے درجن بھر احباب کو گھوڑوں پر لادا اور چل پڑا۔ ہندوستان میں اس نے بہت مال کمایا۔ وہیں اسے گجرات کے بارے میں علم ہوا تھا کہ اس کی مٹی میں جادو ہے۔ جو اسے چھوئے وہ اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب سمجھ بوجھ اس کی ہمارے جیسی ہی تھِی یعنی کوئی خاص بزرجمہر نہیں تھا۔ نتیجہ یہ کہ جب بخارا واپسی کے سفر میں اس کا گجرات سے گزر ہوا تو گجراتی مٹی کے بنے ہوئے جادو کے برتن خریدنے کا خواہاں ہوا۔ ادھر اسے تلے کمہار نامی صاحب فن کا علم ہوا جس کی دکان پر ہر وقت گاہکوں کا ہجوم رہتا تھا۔

مرزا عزت بیگ نے اپنے ایک مصاحب کو تلے کمہار کی دکان پر بھیجا تاکہ وہ برتنوں کی سیلیکشن کر لے۔ وہ خبر لایا کہ مانا تلا کمہار بہترین صراحیاں بناتا ہے مگر جس مٹی سے بنانے والے نے سوہنی نامی صراحی دار گردن والی حسینہ بنائی ہے، اس کا جواب دنیا میں نہیں۔ مرزا عزت بیگ فوراً ذاتی طور پر تحقیق حال کے لئے پہنچا اور مصاحب کے بیان کو درست پایا۔

اس کے بعد مرزا عزت بیگ نے ہر وقت یہ کہنا شروع کر دیا کہ جب میں سوہنی کا دولہا بنوں گا تو۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد آسمان کے تارے توڑ کر لانے کے وعدے شروع کر دیتا۔ اس کی زندگی کا مقصد ہی بس یہ رہ گیا کہ وہ سہرا باندھے اور سوہنی کا دولہا بنے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہو گیا۔

مرزا عزت بیگ نے پہلے تو روز تلے کمہار کی دکان سے برتن خریدنے شروع کیے مگر جب مصاحبین نے بتایا کہ اب اس کا کمرہ بھی لبالب بھر گیا ہے اور لوگ بھی شک کرنے لگے ہیں، تو اس نے تلے کی دکان کے مقابل اپنی مٹی کے برتنوں کی دکان ڈال لی اور تلے کمہار سے ہول سیل میں برتن خرید کر خرید سے بھی کم قیمت پر فروخت کرنے لگا۔ ایک صبح وہ اٹھا تو اسے علم ہوا کہ اس کے مصاحب اس کا تمام مال دولت چرا کر غائب ہو گئے ہیں۔

اب مرزا عزت بیگ کے پاس نہ کرایہ ادا کرنے کو پیسہ تھا اور نہ کھانے کو دھیلا۔ اس نے سوہنی کا دولہا بننے کے چکر میں تلے کمہار کے ہاں اس کی من مانی شرائط پر ملازمت کر لی۔ مجنوں تو صرف سگ لیلیٰ کو خوش کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا مگر مرزا عزت بیگ تو تابعداری کے اس لیول پر آ گیا کہ روز تلے کمہار کے گدھوں تک کی ٹہل سیوا کرتا۔ اب وہ پبلک میں مرزا عزت بیگ کی بجائے مہینوال کے نام سے جانا جانے لگا۔ خیر تلے کمہار کے تمام احکامات ماننے کے باوجود اسے سوہنی کا صرف دیدار ہی ملتا۔ تلے کمہار کو اپنے گدھوں کی خدمت کرتا تابعدار مہینوال اتنا اچھا لگا کہ اسے اپنی بھینسیں بھی سونپ دیں۔

ادھر چراگاہ میں تلا کمہار یا مسز تلا کمہار اسے لنچ دینے جایا کرتے۔ کسی دن وہ مصروف ہوتے تو سوہنی کو بھیج دیتے۔ موقع پا کر مہینوال نے لمبی لمبی پھینکنی شروع کر دیں کہ بخارا میں میرا ایسا بڑا کاروبار ہے اور جب میں سوہنی کا دولہا بنوں گا تو فوراً ہی ملک بخارا میں موجود میرے احباب سونے کی مٹی بھیجنا شروع کر دیں گے اور سوہنی سونے کے گھڑے بنایا کرے گی۔

سوہنی اس پرانے زمانے کے رواج کے مطابق عورت ذات ہونے کی وجہ سے ناقص العقل تھی، مہینوال کی باتوں میں آ گئی۔ خیر اسے کیا الزام دینا، ہم نے تو آج کل کے جدید زمانے میں مردوں کو بھی اسی درجے کا ناقص العقل پایا ہے کہ شیخ چلی سے بڑھ کر شیخیاں بگھارنے والوں کے دعووں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔ بہرحال سوہنی اس سے اندھی محبت کرنے لگی۔

تلے کمہار کو پتہ چلا تو اس نے فوراً سوہنی کا رشتہ کمہار برادری میں کر کے اسے رخصت کر دیا۔ مہینوال نے یہ دیکھا کہ اس کی بجائے سوہنی کا دولہا کوئی دوسرا بن گیا ہے تو اس غم میں اس نے جوگ لے لیا اور چناب پار کٹیا ڈال کر دھونی رما کر بیٹھ گیا۔ علاقے کے لوگ اسے پہنچا ہوا پیر سمجھ کر روز مفت کے نذرانے اور کھانے دینے لگے۔ مہینوال کو خود سے کما کر کھانے کی عادت تو تھی نہیں، یہ مانگے کا سودا اسے خوب پسند آیا۔ سب سے اچھا کام یہ ہوا کہ ادھر کا ایک مشہور مچھِیرا اس کا مرید ہو گیا۔ وہ اپنی شکار کی ہوئی سب سے بڑھیا مچھلی مہینوال کو نذر کرنے لگا۔

ایک دن سوہنی کی ایک سکھی اس کی کٹیا میں آ گئی تو مہینوال کو اس کی ذات میں سوہنی دکھائی دی۔ خیر اس سکھی کے ذریعے سیٹنگ ہوئی اور پھر مہینوال روز تیر کر چناب پار کرتا اور سوہنی سے ملاقات کر کے اسے تفصیل سے بتاتا کہ جب وہ سوہنی کا دولہا بنے گا تو کیا کرے گا۔ سوہنی کی فرمائش پر وہ نذر میں ملی ہوئی سب سے بہترین مچھلی کے کباب بنا کر لے جاتا۔ یوں سوہنی کو مہینوال کی ذات میں کھانے پینے کے لئے ایک بہترین قسم کا بھوندو دکھائی دینے لگا۔

ایک رات موسم طوفانی ہوا اور مچھیرے نے شکار نہیں کیا۔ اس دن سوہنی نے خاص فرمائش کی تھی کہ مچھلی کے کباب لے کر آنا۔ مہینوال نے اپنی ران سے بوٹی کاٹی اور اس کا کباب بنا کر لے گیا۔ دریا کی موجیں بپھری ہوئی تھیں۔ خون بہنے سے مہینوال کمزور ہو گیا تھا۔ کوکنگ بھی اس نے اچھی نہیں کی۔ جب سوہنی نے کباب چکھا تو بے اختیار پوچھا کہ یہ کس جانور کا ہے؟ مہینوال نے لاکھ یقین دلایا کہ یہ مچھلی ہے مگر سوہنی بضد رہی کہ یہ کسی بہت ہی بد ذائقہ جانور کا گوشت ہے۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ مہینوال کا اپنا ہے۔ یہ قربانی دیکھ کر سوہنی کا دل بھر آیا۔

بہرحال اب تک سوہنی اس بات کی قائل ہو چکی تھی کہ مچھلی کے کباب اسے صرف مہینوال سے مل سکتے ہیں، کوئی دوسرا اسے مچھلی کا اتنا زیادہ بڑا پیس نہیں دے گا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اگر مہینوال چناب پار نہیں کرے گا تو وہ کبابوں کی خاطر خود کر لے گی۔ دریا کنارے کی باسی ہونے کے باوجود وہ سوئمنگ نہیں جانتی تھی۔ یا ممکن ہے کہ سست الوجود ہونے کی وجہ سے اس کا سٹیمنا نہ رہا ہو۔ بہرحال وہ گھڑے کے ذریعے دریا پار کرنے لگی تاکہ کباب کھا سکے۔ گھڑا وہ دریا کنارے چھپا کر رکھتی اور حسب ضرورت استعمال میں لاتی۔

سوہنی کی بڑی نند کو پتہ چل گیا کہ سوہنی کے کھانے پینے کا راز کیا ہے۔ وہ اس سے جلنے لگی۔ ایک روز اس نے سوہنی کا گھڑا پار کر لیا اور اس کی جگہ کچی مٹی کا گھڑا رکھ دیا۔ اس دن بارش بھی ہوئی تھی اس لئے کچا گھڑا مزید نرم پڑ گیا۔ سوہنی مہینوال سے ملاقات کے لئے گھڑا پکڑ کر نکلی تو طوفانی دریا نے اسے ڈبو دیا۔ ڈوبتے ڈوبتے اس نے صدا دی کہ ”مہینوال کاش تم میرے پاس ہوتے“۔ مہینوال نے سن لیا، اسے پتہ چل گیا کہ اب وہ مزید سوہنی کا دولہا نہیں بن پائے گا، اس نے بھی دریا میں چھلانگ لگا دی۔ چناب کی بپھری لہروں نے اسے بھی ڈبو دیا۔

دریا کے جانوروں نے ان دونوں کی لاشوں کو کھانے کی کوشش کی مگر عشق کی تپش نے انہیں لاشوں کے قریب نہ آنے دیا۔ اگلے دن دونوں کی لاشیں اکٹھی دریا سے نکالی گئیں۔ انہیں غسل دیا گیا اور ایک ہی چارپائی پر دونوں کا جنازہ اٹھا۔

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی سوہنی ساری مچھلی کھانے کے چکر میں نکمے مہینوال کے دولہا بن کر آسمان کے تارے توڑ لانے کے دعووں پر یقین کر لے تو وہ کچے گھڑے کے سبب نہ صرف خود ڈوب جاتی ہے بلکہ مہینوال کو بھی ڈبو دیتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar