احباب ڈھونڈتے ہیں کہ ظفر کدھر گیا


ہائے یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ گزشتہ دنوں دہلی میں اردو صحافت کے ایک عہد کا خاتمہ ہوا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ پانچ اپریل 2019 کو حرکت قلب بند ہو جانے کے سبب اردو کا ایک بے باک، نڈر مجاہد، قلم کار اور صحافی جس نے کئی دہائیوں تک اردو اور ہندی صحافت میں نہ صرف رہ نوردی اور آبیاری کی بلکہ اپنی بے لاگ اور حق گوئی کے لئے اپنوں کی آنکھ کا شہ تِیر بھی بنا، خاموشی سے اس دنیا سے چلا گیا، جس نے برسوں، ہزاروں خبریں تخلیق کیں۔ لیکن اپنے انتقال پر خود خبر نہ بن سکا۔ اسے اردو صحافت کے لئے المیے ہی سے تعبیر کیا جائے گا، کہ جہاں سے روزانہ سیکڑوں اخبارات نکلتے ہیں، کروڑوں خبریں بنتی ہیں اور ہر دن نئی نئی خبریں تراشنے والے صحیفہ نویس اپنی ہی برادری کے ایک فرد کو ان کے انتقال کے بعد گم گشتہ کتاب کی طرح فراموش کر دیتے ہیں ۔ اس میں ایسے اخبار بھی ہیں جنھیں اس مرد مجاہد نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا، انھوں نے ان کے انتقال کے بعد ان کے بارے میں چند سطری خبر دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ یہ کس قدر رنج کی بات ہے۔

ان کے انتقال کے کئی دنوں بعد ان کے ایک شاگرد اور ہمارے دوست نواب اختر نے ان پر ایک مضمون لکھ کر اپنی ذمے داری ادا کرنے کی گر چہ اپنی سی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی وہ جس چیز کے حق دار تھے ہماری صحافی برادری نے اس جانب دھیان دینا مناسب نہیں سمجھا، جو ہماری بے حسی اور مردُم بیزاری کی دلیل ہے۔ سید ظفر نقوی کے انتقال کی اطلاع مجھے ٹویٹر کے ذریعے ملی، وہ بھی یوں کہ جسٹس (رِٹائرڈ) مارکنڈے کاٹجو کا اردو پر ایک ٹویٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس ٹویٹ کو پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ دیکھیں ان دنوں اردو کے بارے میں کیا بحث چل رہی ہے۔ ابھی ٹویٹر اسکرول کرتے ہوئے چند صفحے بھی نہیں عبور کیے تھے کہ ایک صحافی کے ٹویٹ کو دیکھ کر دنگ رہ گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ اردو کے معروف صحافی ظفر نقوی نہیں رہے۔ پہلے تو اس خبر پر یقین نہیں آیا، رات خاصی بھیگ چکی تھی، اس لئے کسی کو فون کرنا بھی مناسب نہ تھا۔ گوگل انجن پر جا کر سرچ کیا تو نواب علی اختر کے مضمون پر نظر پڑی جس میں انھوں نے ان کی صحافتی زندگی اور قلم و قرطاس کے حوالے سے ان کی خدمات کے بارے میں اپنے احساسات و تجربات کو رقم کیا ہے ۔

میرا ظفر نقوی سے دسیوں سال کا تعلق تھا۔ وہ انتہائی مخلص اور مہربان شخص تھے، دہلی کی اردو صحافت میں جن لوگوں نے مجھے ہمت اور حوصلہ دیا ان میں ظفر نقوی کا نام نمایاں تھا۔ جب میں نے 2009 میں ’روزنامہ صحافت‘ سے وابستگی اختیار کی تو ظفر نقوی اس کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ اس دوران میں مجھے ان سے بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ ’’صحافت‘‘ میں میری تقرری اُنھوں نے کی تھی اور ایک ایسے وقت میں جب میرے لئے دہلی میں پاوں جمانا مشکل تھا۔ ایک پلیٹ فارم دے کر انھوں نے مجھ پر جو احسان کیا، میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔ صحافت میں بائی لائن اور فرنٹ پیج میں خبر چھپنے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اپنے دور ادارت میں میرے نو وارد ہونے کے با وجود انھوں نے میری کئی خبروں کو انتہائی اہتمام کے ساتھ خوب صورت انداز میں جگہ دی، جس میں میری کئی خبریں، پہلے صفحے کی پہلی خبر بھی بنی، جو مجھ جیسے صحافت کے طالب علم کے لئے بڑی بات تھی۔

ملازمت کے دوران میں جب بھی دفتر جاتا انھیں ہمیشہ ادارتی ذمہ داریوں میں محو پاتا۔ وہ اپنے کام کے دھنی اور اپنے فن میں ماہر تھے۔ ان کے قلم میں دھار اور فکر میں توازن تھا۔ سرخی جمانے کا ہنر انھیں خوب آتا تھا۔ شاندار سرخی بنانے کے لئے پورے آفس میں ان کی مثال دی جاتی تھی۔ ایک زمانے میں ’روزنامہ‘ صحافت اسی لئے معروف تھا کہ اس کی سرخیوں میں تخلیقی رنگ ہوا کرتا تھا۔ خشک سے خشک اور معمولی سے معمولی خبر میں بھی بہترین سرخی جمانا انھیں خوب آتا تھا۔ وہ ایجنسیوں کی خبروں میں بھی من و عن سرخی شایع کرنےکے قائل نہ تھے۔ اس کو بدلنے اور قاری کے لئے اسے دل چسپ بنانے کے لئے بسا اوقات وہ ایک سرخی کے لئے بہت دیر تک غور و فکر کیا کرتے لیکن جب سرخی نکلتی تو دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے۔

وہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں بہترین نثر لکھنے پر قادر تھے۔ ان دونوں زبانوں میں انگریزی سے وہ برجستہ، شستہ اور با محاورہ ترجمہ کرنے کے سلیقے سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے۔ انھیں خبروں کے بے کراں سمندر سے چھپنے والی خبر چن لینے کا زبر دست ملکہ حاصل تھا۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے انھوں نے کئی اخبارات میں کام کیا اور ہر جگہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے گئے۔ دہلی کے کئی اخبارات کوانھوں نے اپنے خون جگر سے سینچا جن میں ’روزنامہ صحافت‘ کے علاوہ ہندی ’روزنامہ عوام ہند‘ اور اردو ’روزنامہ قومی سلامتی‘ اردو ’روزنامہ جدید میل‘ ہندی ’روزنامہ شاہ ٹائمز‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اخبار کے مالکوں کے برعکس ان کی زندگی رنگینی اور دکھاوے سے عاری تھی۔ وہ سادگی پسند تھے، جس کی جھلک ان کے روز مرہ کی زندگی میں بھی نظر آتی تھی۔ میں نے انھیں ہمیشہ ایک اسکوٹر ہی پہ سفر کرتے دیکھا، جسے پرانا ہونے کی وجہ سے ہم پطرس بخاری کے ’مرزا صاحب کی سائیکل‘ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔

بنیادی طور پر وہ سائنس اور معاشیات کے طالب علم تھے۔ 1985 میں انھوں نے سائنس میں گریجویشن اور 1987 میں معاشیات میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کی تعلیم آگرہ یونیورسٹی سے ہوئی تھی۔ ان کی عمر تقریبا 65 سال تھی۔ انٹرنیٹ پر ’’دلی نامہ‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک بلاگ موجود ہے۔ جتنا وہ لکھتے تھے پابندی سے اسے اپ ڈیٹ نہیں کر پاتے تھے۔ اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ان کے خانگی مسائل اور پیشہ وارانہ مصروفیت انھیں اس کا موقع  نہیں دیتی ہوں گی۔ پھر بھی اس میں سیکڑوں مضامین شامل ہیں، جس سے ان کی فکر اور فلسفے کا ایک سر سری اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

میری ان سے بعض چیزوں میں زبردست فکری اختلافات تھے لیکن ان سب کے باوجود وہ مجھے بے حد عزیز رکھتے، انھیں مجھ پر اعتماد بھی تھا اور یہی وہ بھروسا تھا کہ جب انھوں نے “قومی سلامتی” کی ذمہ داری سنبھالی تو ادارتی ٹیم میں شامل کر لینے کے لئے مجھے کئی مرتبہ دعوت دی، لیکن تب تک میں اردو صحافت سے دل برداشتہ ہو کر اکیڈمک فیلڈ اختیار کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ جب میں نے انھیں اپنے ارادے سے مطلع کیا تو خوشی کا اظہار کیا تاہم یہ ضرور کہا کہ کبھی بھی پریشانی ہو تو آجانا، یہ الگ بات ہے کہ یہ اخبار بہت جلد بند ہو گیا لیکن انتہائی کم مدت میں خبر اور مواد کے حساب سے اس نے دہلی کے اردو صحافت میں جو دھوم مچائی اسے دیرتک یاد رکھا جائے گا۔ اس میں نقوی صاحب کے علاوہ اور بھی لوگ تھے جنھوں نے اس اخبار کو کام یاب بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ محمد احمد کاظمی، ایم ودود ساجد، سراج پراچا جیسے لوگوں کا ایک جگہ جمع ہوجانا اردو صحافت کے لئے بڑی بات تھی۔

ادھر بہت عرصے سے وہ اخبار مالکان کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر گرچہ صحافت سے علاحدہ ہوچکے تھے مگر لکھنے پڑھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ سوشل میڈیا پر ملی اور سیاسی موضوعات پر وہ اخیر دم تک لکھتے رہے۔ ان کی تحریریں متوازن، سنجیدہ اور ملی درد سے لب ریز ہوا کرتی تھیں۔ قومی و ملی مسائل کے حل اور حکومت کی متنازِع پالیسیوں پر وہ کھل کر لکھتے۔ نامساعد حالات، دھونس، دھاندلی و دھمکیوں سے بے پروا ہو کر اپنے مقصد میں لگے رہنے کو وہ ترجیح دیتے تھے۔ پیشہ وارانہ طور پر وہ خاصے مضبوط اورمشکل و صبر آزما حالات سے باہر نکلنے کے ہنر سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس لئے صحافتی دنیا میں نت نئے تجربے کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، جس کی مثال ان کے زیر ادارت اخبار میں دیکھنے کو ملتی تھی ۔

اپنے ابتدائی دنوں میں بریلی سے انھوں نے ایک اپنا اخبار بھی نکالا تھا۔ دہلی سے اس کے احیا کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے کئی مرتبہ اس کے لئے ٹیم جوڑنے اور سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینے کی درخواست کی تھی لیکن اردو صحافت نے ہمیں کم ترین مدت میں اتنا توڑ دیا تھا کہ اس کی سوچنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ا س لئے ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ’ہاں ہوں‘ کہہ کے دامن جھاڑ لیتے۔ ظفر نقوی امام خمینی کی شخصیت اور ان کی فکر سے بہت متاثر تھے۔ اس کا اثر ان کی تحریروں میں بھی دیکھنے کو ملتا، انھوں نے کئی مرتبہ ایران کا سفر بھی کیا تھا۔ میری کتاب “ایران میں کچھ دن” کا مسودہ جب میں نے تیار کر لیا تو میری خواہش تھی کہ کسی ایسے شخص کو ایک مرتبہ دکھا لیا جائے جس نے نہ صرف ایران کو دیکھا ہو بلکہ اس کی فکر سے بھی واقف ہو، اشاعت سے قبل جب میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ اسے ایک نظر دیکھ لیں اور کمیوں و غلطیوں کی نشاندہی فرمادیں تو انھوں نے انتہائی شفقت سے اس کو قبول کیا اور پوری دل جمعی کے ساتھ مکمل کتاب پڑھ کر کئی جگہوں پر نہ صرف زبان کے سقم کو دور کیا بلکہ کمیوں اور خامیوں کی بھی نشان دہی کی۔ اس سے مجھے کتاب کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملی۔ کتاب میں کئی جگہ پر میں نے ایران میں جو دیکھا، اس پہ سخت گرفت کی تھی اور مجھے امید تھی کہ وہ اس پرناگواری یا اختلاف کا اظہار کریں گے لیکن انھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا تھا تنقید ضروری ہے۔ انھوں نے کتاب کا نام “میں بھی ایران گیا” تجویز کیا تھا۔

اس مصروف اور بھرے پڑے شہر میں جب کبھی میری ان سے راہ چلتے بھی ملاقات ہوجاتی تو دیر تلک بات کرتے ، پڑھائی لکھائی اور مطالعے کے بارے میں دریافت کرتے۔ اکثر آئیڈیاز پر گفتگو کرتے اور لکھنے کے لئے نئے نئے موضوعات سجھاتے۔ ایسے مشفق و مہر بان شخص کا جانا صرف ان کے اہل خانہ کے لئے ہی نہیں بلکہ ہم جیسے ان کے سیکڑوں چاہنے والوں کے لئے بھی صدمے کا باعث ہے۔ علمی اور صحافتی حلقوں میں ان کی کمی اور خلا دیر تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لواحقین اور عزیز و اقارب کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah