صحیفہ جبار خٹک: ’باڈی شیمنگ پر آواز بلند کرنا نقارخانے میں طوطی کی آواز سا ہے‘


‘میں ٹی وی سے ایک سال کا وقفہ لوں گی، خود کو گنجا کرواؤں گی اور دنیا کی سیر کو نکلوں گی اور اس دوران سوشل میڈیا کا مکمل بائیکاٹ کروں گی۔‘

اداکارہ اور ماڈل صحیفہ جبار خٹک کی سوشل میڈیا سے اس اکتاہٹ کے پیچھے وہ چند مہینے ہیں جب آن لائن باڈی شیمنگ نے ان کی زندگی قدرے تلخ کر دی تھی۔

باڈی شیمنگ سے مراد آپ کی ظاہری شخصیت یا آپ کے جسم کی کسی بھی خاصیت کی بنیاد پر آپ کو مذاق، یا تنقید کا نشانہ بنایا جائے، آپ کے بارے میں رائے قائم کی جائے جس سے آپ پریشان ہوں یا ذہنی اذیت اور ڈپریشن کا شکار ہو جائیں اور اس سے آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔

باڈی شیمنگ سیریز کی مزید کہانیاں پڑھیے

’آپ کا قد چھوٹا ہے، آپ کچھ نہیں کر سکتے‘

’چھوٹا قد ہو یا موٹا جسم ہر کمی آپ کی طاقت بن سکتی ہے‘

پلس سائز فیشن: ’پاکستان میں میرا ناپ نہیں ملتا‘

26 سالہ صحیفہ چار سال سے پاکستانی ٹی وی انڈسٹری کے ساتھ منسلک ہیں اور کرئیر کے آغاز سے ہی ان کا شمار انڈسٹری کی ان اداکاراؤں اور ماڈلز میں ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روایتی انداز سے ہٹ کر خود کو منوانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

صحیفہ خٹک کو اس وقت آن لائن باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے ‘پِکسی ہیئر کٹ’ کرواتے ہوئے اپنے لمبے بال کٹوا کر بالکل چھوٹے کروا دیے۔ کپڑوں کے ایک بڑی پاکستانی برانڈ کے لیے کیے گئے شوٹ کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ بیشتر نے انھیں مردوں سے تشبیہ دی، کئی افراد کے لیے یہ قابلِ قبول ہی نہ تھا کہ ایک عورت کے چھوٹے بال ہو سکتے ہیں اور یہ سوال بھی کیا گیا کہ پاکستان کے قومی لباس شلوار قمیض میں ایک مغربی ہیئرکٹ والی ماڈل کیوں ہے؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحیفہ جبار خٹک کہتی ہیں کہ سب سے پہلے انھیں یہ سننے کو ملا کہ ‘ہائے، بال کٹوا دیے؟ اب کام نہیں ملے گا! تمہیں نہیں پتا کہ لان کے شُوٹ کے لیے لمبے بالوں والی لڑکیاں چاہیے ہوتی ہیں؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’بال کٹوا دیے سو اب کام تو نہیں ملنا، تو میں تو گھر ہی بیٹھ گئی کہ ارے اب تو کریئر ختم، یہ میں نے کیا کر دیا۔‘

صحیفہ جبار کے مطابق ایسا ہی ہوا ۔ ان کے کچھ کنٹریکٹ اس وجہ سے ختم ہو گئے کہ ان کے بال اب چھوٹے تھے اور ماڈلنگ کے لیے صرف مخصوص حلیے میں نظر آنے والی خواتین کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے!

جسم کی ساخت کا مذاق اڑانے والے اشتہار پر احتجاج

کیا آپ بھی اپنے بچے کا موٹاپا چھپاتے ہیں؟

علیحدہ جم سے زیادہ خواتین ورزش پر مائل ہو رہی ہیں

ان کی اپنی سوشل میڈیا پروفائلز پر کئی افراد کی رائے نہایت ہتک آمیز تھی۔ صحیفہ نے ان کمنٹس کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ‘کسی نے یہ کہا کہ ‘اس کی جگہ لڑکے کو لے لیتے، کسی نے لکھا کہ خواجہ سرا کو لے لیا کیا، یہ بھی کہا گیا کہ ارے اس لڑکی کے ساتھ ایسا کیا ہو گیا کہ بال کٹ گئے، نشہ تو نہیں کر رہی کہ بال کٹوا لیے؟’

صحیفہ جبار کے مطابق وہ ایسے تبصروں کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار بھی رہیں۔

لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ملک میں کسی اداکارہ کو باڈی شیمنگ کا نشانہ بنایا گیا ہو۔

معروف ماڈل آمنہ شیخ نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ انھیں بچپن سے ہی یہ کہا جاتا تھا کہ ان کا ماتھا اتنا بڑا ہے جتنا کہ ‘ہاکی گراؤنڈ’۔

‘کچھ لوگوں کو تو یہ پسند تھا، مگر ٹی وی میں کئی ایسے بھی ہیں جو آج بھی یہ تجویز کرتے ہیں کہ میں اس کو ڈھانپ لوں۔ ‘آمنہ یہ بہت بڑا ہے، اس سے تمہارا چہرہ بہت عجیب لگتا ہے، یا کوئی یہ کہتا ہے کہ اپنے بال بہت سختی سے نہ باندھنا، کیونکہ اسے تمہاری ہیئر لائن مزید پیچھے ہو جائے گی، تمہارا ماتھا مزید بڑا لگے گا، اور یہ تمہارے خلاف جا سکتا ہے’۔

صحافی،تجزیہ کار اور یو ٹیوب بلاگر مہوش اعجاز سمجھتی ہیں کہ سوشل میڈیا کے باعث اب براہِ راست اداکاراؤں کو نشانہ بنانا آسان ہو چکا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں شوبز سے تعلق رکھنے والی خواتین کی باڈی شیمنگ ایک عام سی بات ہے، اور اس کا شکار کوئی بھی خاتون ہو سکتی ہے۔ ‘وہ ماہرہ خان سے پریانکا چوپڑا سے ہیری بیبر تک کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے خود بھی یہی سب سہا ہے، جب آپ یو ٹیوب پر جائیں یا اپنا چہرہ لوگوں کے سامنے لے کر جاتے ہیں تو شاید لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم انھیں یہ کہہ رہے ہیں کہ اب انھوں نے ہمارے ‘کانٹینٹ’ کی بجائے ہمارے چہرے پر بات کرنی ہے۔ یہ دنیا بھر میں ہو رہا ہے، لیکن ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہے’۔

ذہنی دباؤ سے موٹاپا کیوں ہوتا ہے؟

موٹوں پر تنقید کی ویڈیو کے بعد ‘یوٹیوب ہنگامہ’

کچن میں کہیں پیسے ملتے ہیں اور کہیں پیار

صحیفہ جبار کے مطابق اب چونکہ سوشل میڈیا صارف خود کو سکرین کے پیچھے محفوظ سمجھتا ہے، اس لیے وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ وہ جدید معاشرے میں قائم اس معیار پر بھی سوال اٹھاتی ہیں جو آج کی خاتون کے لیے طے کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق کیا ایک عورت جدید تراش خراش کا لباس نہیں پہن سکتی، کیا ایک ‘مشرقی’ عورت کے بال لمبے ہونا ضروری ہے، کیا ایک دوپٹہ یا حجاب ہی کسی عورت کے کردار کا ضامن ہے اور ایک گلی سڑی سوچ والا معاشرہ ہی یہ کیوں طے کرے کہ عورت کا کردار کیسا ہونا چاہییے اور یہ کہ عورت اسے جوابدہ ہی کیوں ہے؟

لیکن ان کے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ خود ڈراموں اور فلموں میں عورتوں کے کردار ہیں جن میں عورتوں کو روایتی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

‘اصل زندگی میں ایک بہت بولڈ، بہادر، پڑھی لکھی اور اپنے پاؤں پر کھڑی عورت کو ڈراموں میں ایک مظلوم، ڈرپوک، الجھی ہوئی اور دوسروں پر انحصار کرنے والی عورت کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اور پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھے ناظرین اسی ‘آؤٹ لُک’ کو عورت کے لیے معیار بنا بیٹھتے ہیں۔‘

صحیفہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب ان ناظرین کو ایک دن پہلے ان کے من پسند ڈرامے میں مار کھاتی مظلوم سی عورت کے روپ میں نظر آنے والی اداکارہ دوسرے روز ایک بولڈ شوٹ میں ماڈرن، چھوٹے بالوں اور جدید کپڑوں میں ملبوس عورت کے طور پر دکھائی دیتی ہے تو یہ ان کے لیے ناقابلِ یقین اور ناقابلِ قبول ہو جاتا ہے، اور پھر وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اس اداکارہ کی باڈی شیمنگ کرتے ہیں بلکہ اس کے کردار پر بھی گھٹیا الزامات لگائے جاتے ہیں۔’

صحیفہ جبار

Sahifa Jabbar Khatak
صحیفہ جبار کے مطابق ان کے کچھ کنٹریکٹ اس وجہ سے ختم ہو گئے کہ ان کے بال اب چھوٹے تھے

ان کے خیال میں یہ افسوسناک بات ہے کہ ہمارے فینز یا ہمارے ہیٹرز یہ نہیں سوچتے کہ ان کا یہ کمنٹ ہماری کس قدر دل آزاری کر سکتا ہے۔’

مہوش اعجاز کہتی ہیں کہ باڈی شیمنگ پر آواز بلند کرنا نقارخانے میں طوطی کی آواز سا ہے کیونکہ ’یہ اس قدر قابلِ قبول ہے کہ کسی کو کہہ دینا ‘ابے اوئے موٹی، تیری ناک ایسی ہے، تیرا رنگ ایسا ہے، تو کالی ہے’ وغیرہ، یہ عام سی بات ہے۔ باڈی شیمنگ تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک لوگوں کی سوچ نہیں بدلے گی’۔

صحیفہ جبارکی رائے ہے کہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں اب بھی خواتین کو مخصوص روایتی انداز میں ہی دکھایا جاتا ہے۔ صحیفہ کے خیال میں اس روایت سے انحراف کریئر ختم ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

ان کے مطابق ‘میرے خیال میں ایک اداکار کی پہچان اس کی اداکاری سے ہونی چاہیے نہ کہ بال کتنے لمبے ہیں، آنکھیں نیلی ہیں یا نہیں، وہ گوری ہے یا کالی ہے، پیاری ہے یا ماٹھی ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر میرے چہرے پر کیل مہاسے ہیں تو مجھے ٹی وی پر دکھانا چاہییے کہ ہاں یہ ایکنی ہے، یہ میرا حصہ ہے اور یہی میں ہوں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp