نواز شریف نے اسد عمر کے استعفے کی پیش گوئی کب کی تھی؟
6 دسمبر 2018 کی بات ہے۔ احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ارشد ملک العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کر رہے تھے۔ میاں نواز شریف عدالت کے روبرو پیش تھے۔ خواجہ حارث تفتیشی آفیسر پر دھمیے مزاج میں تابڑ توڑ جرح کر رہے تھے۔ سماعت میں وقفہ ہوا۔ میاں نواز شریف رجسٹرار آفس سے متصل کمرہ میں چائے پینے کے لیے گئے۔ ان کے ساتھ مسلم لیگی رہنماؤں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔
میں برآمدے میں کھڑا تھا کہ نواز شریف کے دست راست عرفان صدیقی صاحب آ گئے اور مجھ سے مخاطب ہوئے۔ باہر کیوں کھڑے ہو، آئیں چائے پیتے ہیں۔ انھوں نے میرا بازو تھاما اور مجھے کمرے میں لے گئے۔ کمرے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔
میاں نواز شریف خوشگوار موڈ میں ساتھیوں سے گپ شپ کر رہے تھے کہ درمیان میں ان کے سلسلہ کلام میں توقف آیا۔ صحافی تو ہر وقت خبروں کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے۔ اُن دنوں ڈالر اونچی اُڑان پر جا رہا تھا۔ موقع غنمیت جانتے ہوئے میں نے سوال داغ دیا کہ ڈالر بلند پرواز پر ہے، معشیت لڑکھڑا رہی ہے اور وزیرخزانہ قوم کو صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟
میاں نواز شریف بولے کہ یہ ” مُلک کھاد کا کارخانہ نہیں” لیکن اسے کھاد کا کارخانہ سمجھ کر چلایا جا رہا ہے۔ جلد یا بدیر وزیر خزانہ کو گھر جانا پڑے گا۔ اس مُلک کو جو بیماریاں ہیں، وہ میں جانتا ہوں۔ جو بھی ان کا علاج کرنے کی کوشش کرتا ہے، اُسے گھر بھیج دیا جاتا ہے ۔
میں کافی دیر سوچتا رہا کہ وہ کون سی بیماریاں ہیں جن کی طرف میاں نواز شریف نے اشارہ کیا۔ غور و فکر کے بعد اس نتیجے پہنچا کہ جن بیماریوں کی طرف میاں نواز شریف نے اشارہ کیا، اُن کا نام لینے سے بھی مجھے ڈر لگتا ہے۔
اسد عمر کے استعفیٰ کی خبر جیسے ہی میڈیا کی زنیت بنی مجھے پانچ ماہ قبل میاں نواز شریف کی گئی گفتگو کا ایک ایک لفظ یاد آنے لگا اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کہا جاتا ہے لیڈر وہ ہوتا ہے جو دور اندیش ہو، جو آگے کی سوچتا ہو، اسے پتہ ہو کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ وہ دیوار کی پرلی طرف کی بھی خبر رکھتا ہو کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ اگر یہ لیڈر کی پہچان ہے تو پانچ ماہ قبل میاں نواز شریف نے اسد عمر کے گھر جانے کی پیشن گوئی کر دی تھی تو پھر میاں نواز شریف کو کیا نام دیں گے؟ لیڈر یا سیاست دان ۔۔۔۔
عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا۔ لانے والوں کا خیال تھا کہ وہ کاروبار حکومت کو سنبھال لے گا مگر انتقام کی آگ میں جلنے والے عمران اور ان کے ہمنواؤں کو ملک سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ نواز شریف کو سزا کیسے دینی ہے؟ اُنھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیسے ڈالنا ہے؟ ملکی معشیتت کا بیڑا غرق ہوتا ہے تو ہوتا رہے، بجلی مہنگی ہوتی ہے تو ہوتی رہے، مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکلتی ہیں تو نکلتی رہیں، ان سے ہمارا کیا تعلق؟
ارے بات کسی اور رخ کی طرف چلی گئی۔ محض یہ کہنا تھا کہ مجھے اسد عمر کے استعفیٰ پر تعجب نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے تو چھ دسمبر 2018 کو اس کی پیش گوئی کر دی تھی۔
- الیکشن کے دن اسلام آباد کے ایک رپورٹر نے کیا دیکھا؟ - 25/02/2024
- قاضی فائز عیسیٰ تاریخ کے صفحات میں کہاں کھڑے ہوں گے - 17/11/2023
- پریس پر پابندی – کل اور آج - 19/06/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).