حقوقِ نسواں کے راستے میں حائل چند مشکلات


جب سے انسان جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہے اس وقت سے مردوں نے عورتوں کو جسمانی ساخت میں اپنی ساخت سے مختلف اور قوت میں کمزور پاکر نہ صرف ان کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرنا چھوڑدیا بلکہ ان کو اپنے سے کم تر اور مختلف النسل بھی سمجھ لیا۔ انہوں نے عورت کی زندگی کا مقصد صرف یہ سمجھا کہ اس سے مرد کے لئے تسکین اور گھر کے لئے خادمہ اور ملازمہ کا کام لیا جائے۔

آج اکیسویں صدی میں بھی عورت پر کچھ کم مظالم نہیں ہورہے البتہ انداز بدلے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے خود مسلمانوں کے معاشرے میں مردوں نے عورتوں کو اپنے فواید کے لیے رسوم وقیود میں جکڑ رکھا ہے، جہاں ایک طرف ایک طبقے نے پردے میں ایسی شدت اختیارکی کہ عورتوں کی نقل حرکت کو گھروں کی چاردیواری میں اس طرح محدود کردیا کہ وہ قدرت کی تازہ ہوا سے مستفید ہونے سے بھی محروم ہوگئیں بلکہ اپنی جائز ضروریات کی خاطر بھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتیں۔

دوسری طرف جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے نے عورتوں کو نہ صرف یہ کہ وراثت سے محروم کر رکھا ہے بلکہ زناکے شبہ پر عدالتی ثبوت کے بغیر کاروکاری جیسے ظالمانہ طریقے سے ان کے قتل وغارت گری کا نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔ کسی نام نہاد ”روشن خیال“ کی یہ ہمت نہیں کہ اس لوٹ کھسوٹ اورظلم کو ختم کرنے کی جرت کرسکے۔

پہلے وقتوں میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تاکہ بڑی ہو کر یہ فساد کا باعث نہ بنیں پھر زمانے نے کچھ ترقی کی اور عورتوں کو پالنے کا رواج شروع ہوا مگر شادی کے بعد اگر اس کا شوہر مر جاتا تو اس دلہن کو بھی اس کی میت کے ساتھ جلا دیا جاتا بالکل ایسے ہی جیسے آندھیوں میں درخت گرنے سے پرندوں کے گھونسلوں میں موجود بمشکل آنکھ کھولنے والے بچے پھڑ پھڑا کر مر جائیں مزید ترقی کرنے پر شوہر کی وفات کے بعد اس کے بھائی کے ساتھ شادی کرنے کا رواج عائد کیا گیا اب ہمارے معاشرے نے زمانے کی تیز رفتاری سے اتنی ترقی کر لی کہ عورت بہت پیچھے رہ گئی ہے اب اگر کوئی عورت بیوہ ہو جائے تو اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ممتا کے نام پر یا رشتہ داروں کے بچے سنبھالتے سنبھالتے اپنی ساری خواہشات کو دل ہی میں دفنائے مر جانے کا درس دیا جاتا ہے

اس کے بعد آتے ہیں وہ مرد حضرات جنہیں دوسروں کی مائیں ’بہنیں تو اس قدر اچھی لگتی ہیں کہ اپنی ساری دھن دولت ان پر لٹا دینے کو تیار ہوتے ہیں مگر اپنے گھر کی بیٹیوں پہ افسوس کا اظہار وہ اپنی بیوی سے اس طرح کرتے ہیں ”یہ کیا پھر سے بیٹی ہو گئی تم ہو ہی منحوس“ لیکن ماں تو آخر ماں ہوتی ہے اس کی ممتا اسے اپنے پیٹ میں نو مہینے پلنے والے بچے کو دھتکارنے کی اجازت نہیں دی سکتی ماں تو گلے سے لگا کر خدا کا شکر ادا کرتی بے کہ بیٹی ہی سہی بے عیب تو ہے کچھ سالوں بعد بیٹا پیدا ہونے پر وہی باپ جو خدا کی رحمت سے منہ پھیرے ہوتا ہے اب مذہبی انتہا پسند ہونے کے باوجود ناچ کود کے ساتھ پورے محلہ میں مٹھائی تقسیم کرتا ہے

وقت کی ایک اچھی خوبی ہے کہ یہ ٹھہرتا نہیں اچھا ہو بھلے ہی برا گزرتا چلا جاتا ہے ایسی ہی لڑکیاں اپنے حصہ کے پیار سے محروم اپنے بھائی کی طرف حسرت سے دیکھتی بڑی ہو جاتی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لڑکیاں تو پرایا مال ہوتی ہیں ان پر توجہ کیوں کر دی جائے اس کے علاوہ ہمارے ہاں خوبصورتی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جن کی شکل صورت اچھی ہوتی ہے ان کا رشتہ جلدی ہو جاتا ہے اور جو تھوڑی شکل کی اچھی نہ ہوں ان کو رنڈوا ’معذور یا نشئی مردوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اگر ان میں سے بھی کوئی نہ اپنائے تو بچ جانے والی لڑکیاں ساری زندگی کے لیے باپ‘ بھائی ’چچا وغیرہ کی خدمت اور تابعداری میں معمور کر دی جاتی ہیں اور ان سے توقع یہ رکھی جاتی ہے کہ اس کے دل میں کوئی حسرت پیدا نہ ہونے پائے اگر غلطی سے کوئی حسرت کر بھی بیٹھے تو خود ہی اسے دل میں راکھ کا ڈھیر کر دے ساری عمر طعنے سننے‘ دوسروں کے بچوں کو حسرت سے دیکھنے اور خدا کی بہت ساری نعمتوں سے محروم رہ کر بلآخر اپنا حساب مانگنے اس کے پاس چلی جاتی ہیں۔

ہم اس معاشرہ کا حصہ ہیں جہاں لوگ مسلمانی کا لبادہ اوڑے قدیم رسومات میں جکڑے زندگی گزار رہے ہیں ہمارے ہاں سارے گناہ کرنے کی اجازت ہے مگر ”چھپ کر“ زمانہ کے سامنے شرافت کا لباس پہنے رکھنے میں ہی بھلائی سمجھی جاتی ہے۔ یہ منافق معاشرہ بہت سارے مظالم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور یہاں کے لوگ اندھے اور گونگے ہونے کے ساتھ ساتھ بے حس ہو گئے ہیں یہ لوگ بہت سکون سے اذیت میں رہتے ہیں۔

اس سماج میں موجود بہت سارے مسائل جن کو حل کرنا شاید اب ہمارے بس میں نہیں رہا یا ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ ان مسائل کو حل کر سکیں یا حل کرنا نہیں چاہتے۔ ہمارا معاشرہ جائیداد میں حصہ نہ دینے، پسند کی شادی سے روکنے حتی کہ جس کو فوقیت دی گئی ہے اور صنفی برتری کے نام پر عورت کا استحصال کر رہا ہے اور اس کے جائز حقوق دینے سے قاصر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عورت کو بھی انسان سمجھیں اور اس کی پسند نا پسند کی فوقیت دیں اور اُس کو اُس کے جائز حقوق دیں تا کہ معاشرے میں توازن پیدا ہو اور گھٹن زدہ ماحول کا خاتمہ ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).