حضور کا اقبال بلند ہو، غریب کو جینے کا حق عنایت فرما دیں


انٹرویو کے دوران سوال پوچھا گیا پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
بات اگرچہ تلخ ہے اور حساس بھی کہ اس موضوع پر لب کُشائی کرتے ہوئے ہم عوام کے تو پر جلتے ہیں، اور آج کل تو بھلا کون بیل کو مارنے کی دعوت دے؟

کمزور کے لئے توہین عدالت کے دفعات کی لٹکتی ہوئی تلوار ہے ہی۔ بس ایک ہمارے وکیل بھائی ہیں جو توہین تو کیا کریں گے، اس طوطے کی طرح جس نے ہمسائے کی شکائت پر مالک سے مار کھانے کے بعد کہا تھا ”سمجھ تو آپ گئے ہوں گے“۔

تو بس ہم سے کیا کہلوانا سمجھ تو آپ بھی گئے ہوں گے۔

سو ہمارے نزدیک پاکستان کاُسب سے بڑا مسئلہ انصاف کی عدم فراہمی ہے، یہاں انصاف بکتا ہے اور غریب کی نسلیں رُل جاتی ہیں کورٹ کچہری کے دھکے کھا کر۔
لے دے کے ایک ہمارے وکیل بھائی ہیں جن کو پورا انصاف میسر ہے اور وہ بھی ان کی مرضی کا۔ ساری عدالتیں اور سارے کٹہرے ان کے، جس سفید پوش کو چاہیں جس کٹہرے میں کھڑا کر دیں۔

ذرا غور کریں تو سارے مسائل انصاف کی عدم فراہمی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور انصاف کی عدم فراہمی کی واحد وجہ یہ کہ جوڈیشل سسٹم میرٹ پہ اُستوار نہیں ہے۔ محترم منصفین کو کون پوچھ سکتا ہے بھلا؟

وزیراعظم استعفیٰ دے کر جیل چلا جائے پر جج صاحب استعفیٰ دے کر سکون سے گالف کھیلیں گے۔
ذرا تھوڑی دیر کے لئے جان کی امان پا کر عرض کر دیکھیں کہ ایک سول سرونٹ کی سیلیکشن کے لئے مقابلے کے کئی کٹھن مراحل ہیں تو ایک جج کی سیلیکشن کے لئے وہی طریقہ کار کیوں اپلائی نہیں کیا جا سکتا؟

گریڈ 17 کے سول افسر کی تنخواہ دس سالہ سروس کے بعد 65 ہزار ہے تو ایک ہی گریڈ کے سول جج کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ سے اوپر ہے، بھلے اور اتنی تنخواہ دے دیں پر غریب کو فوری انصاف تو فراہم کیجئے مائی لارڈ۔

چلیں سول جج تو رہے ایک طرف بڑی کورٹس کے ججز کی سیلیکشن کا کوئی طریقہ کار؟ میرٹ شاید صرف یہ کہ اچھا وکیل ہو اور بڑے چیمبر سے ہو؟ ابھی تک تو یہی مشاہدے میں آیا ہے، حضور کوئی مقابلے کا امتحان ہی رکھ لیں کہ میرٹ پہ جج بننے کا رستہ ہموار ہو تو چیمبرز اور بارز کی بلیک میلنگ سے جان چھوٹے۔

فواد حسن فواد اور احد چیمہ سے لے کر بڑے بڑے بیوروکریٹس کی ایک لمبی لسٹ ہے جو کرپشن کے الزامات پر جیل یاترا کرتی ہے اور برسوں مقدمات کا سامنا کرتی ہے مگر کتنے جج ہیں جو اس احتساب سے گزرتے ہیں؟

فیصل رضا عابدی جیسے بے ادب گرفتار ہو گئے اچھا ہوا، اس سے بھی کڑی سزا ملنی چاہیے تھی ایسے گستاخوں کو، پر مائی لارڈ! اس کے اُٹھائے سوالوں کے جواب دے دیے جاتے تو ہمیں بھی ایسے ملک دشمن عناصر کو بُرا بھلا کہنے میں آسانی رہتی۔

چلیں چھوڑیں مائی لارڈ۔ اعلیٰ عدلیہ کے اعلیٰ ایوانوں سے نکلنے والی سازشی تھیوریاں ایک طرف رکھئیے، انصاف کے ایوانوں میں ایڑیاں رگڑتے بڑے بابوں کی کئی نسلیں آخر کبھی حقیقی انصاف سے فیضیاب ہو ہی جائیں گی، ہمارا مسئلہ نہیں ہے، کوئی پراپرٹی ٹائیکون مال بنائے یا پھر اللہ کی راہ میں مال لُٹائے، یہ آپ جانیں یا اُس کاُرب جانے ہمیں اس سے کیا؟ آپ جس کام کو چاہیں کرنے کے لئے سٹے آرڈر عنائت فرما دیں چاہیں تو نہ کرنے کے لئے سٹے آرڈر جاری فرمائیں، پر بس ایک التجا مان لیں نیچے دیے گئے عکس میں بی بی سی کی رپورٹ ملاحظہ کر کے بس ایک سٹے آرڈر خارج فر ما لیں، غریبوں کو سسک سسک کر سہی جینے کا حق تو عنایت فرما دیں۔
حضور کا اقبال بُلند ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).