اسد عمر کا استعفیٰ: پارٹی میں دھڑے بازی یا کارکردگی، وجہ کیا بنی؟


اسد عمر

پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کے کابینہ سے الگ ہونے کے اعلان کو مبصرین عمومی طور پر پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کررہے ہیں۔ اسد عمر کو پارٹی کا ’پوسٹر بوائے‘ مانا جاتا تھا اور تو اور وزیر اعظم کو بھی ان کی قابلیت اور صلاحیت پر بھرپور اعتماد تھا۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں ان کی رخصتی نے پارٹی میں ہونے والی فیصلہ سازی پر شدید سوالات اٹھا دیے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے چند دن پہلے میڈیا میں وزارتوں کے قلم دان میں تبدیلی کی خبروں کو مسترد کردیا تھا اور نہ صرف یہ بلکہ میڈیا کو تلقین بھی کی تھی کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

صحافی اور تجزیہ کار بے نظیر شاہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تو بہت تشویش ناک بات ہے کہ اس خبر کو رد کرنے کے کچھ دن بعد ہی یہ فیصلہ سامنے آگیا، یہ تو ظاہر کرتا ہے کہ یا وزیر اعظم کو نہیں پتا تھا یا وزیر اطلاعات کو اس کا علم نہیں تھا اور یا یہ فیصلہ ایک دم سے لیا گیا۔‘

بے نظیر شاہ کی رائے میں ناقص کارکردگی کے علاوہ پارٹی کے اندر دھڑے بازی بھی اس فیصلے کا سبب بنی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں پہلے ہی وزیر اعلیٰ پر بہت تنقید ہورہی ہے اس لیے کافی تشویش پائی جاتی ہے کہ پارٹی اِن لوگوں کا انتخاب کن بنیادوں پر کر رہی ہے۔‘

’اسد عمر کو منا لینا چاہیے تھا‘

نجی ٹی وی چینل ’سما‘ پر پروگرام ’سوال وِد امبر‘ کی میزبان امبر شمسی کا کہنا تھا کہ اسد عمر تو پارٹی کے ’پوسٹر بوائے‘ تھے جن کا ہمیں پتا تھا کہ اگر تحریک انصاف حکومت میں آئی تو انھیں وزیرِ خزانہ بنایا جائے گا۔ اس فیصلے سے پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی کُھل کر سامنے آگئے ہیں۔‘

انھوں نے مزید ان اختلافات پر بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین کا ذکر کیا کہ نا اہل ہونے کے باوجود پارٹی میں ان کا دھڑا زیادہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔

نجی ٹی وی پروگررام ’ٹونائیٹ ود فریحہ‘ کی میزبان فریحہ ادریس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے حامی عمران خان کے بعد جس شخص کی جانب دیکھا کرتے تھے، وہ اسد عمر صاحب تھے اس لیے ان کی رائے میں پارٹی کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا ہے۔

’میرے خیال میں سیاسی طور پر بھی اس مسئلے کو صحیح انداز سے نہیں نمٹا گیا، اسد عمر کو پیار محبت سے منا لینا چاہیے تھا کہ وہ کابینہ کا حصہ رہتے کیونکہ وہ جماعت کا ایک نمایاں چہرہ ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ تاثر یہ جا رہا ہے کہ نہ صرف اسد عمر بلکہ تحریک انصاف بھی معیشت کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں تھی۔

صحافی خرم حسین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اسد عمر کی پریس کانفرنس کے دوران پائے جانے والی خالی کُرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سب ایسے ہی رخصت ہوتے ہیں۔ اکیلے۔ عمران خان کو اس تصویر پر غور کرنا چاہیے۔`

کیا ایک اور نظریاتی چہرہ منظرِعام سے ہٹا دیا گیا؟

اسد عمر

صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود نے اُن نظریاتی کارکنان کا ذکر کیا جن کو ان کے بقول پارٹی نے اب نظر انداز کردیے ہیں۔ جسٹس وجیح الدین سمیت اکبر ایس بابر جیسے نظریاتی لوگوں کی مثال دی جن کی تشہیر پارٹی نے بہت کی مگر اختلاف رائے کے بعد یا اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد ان لوگوں کو بُھلا دیا جاتا ہے۔

’میرے خیال میں اب جماعت کے حامی اسد عمر کے بھی خلاف ہوجائیں گے جیسے اس سے قبل ان نظریاتی لوگوں کے خلاف ہوئے تھے۔‘

عمار مسعود کے خیال میں ’عوام اور اس پارٹی کے حامیوں کا ’استعمال‘ ہو چکا ہے اور ایک ایسی کابینہ سامنے آئی ہے جس کا سر ہے نہ پیر ہے اور نہ ہی اس کی جڑیں عوام میں ہیں۔‘

اشر رحمان نے بتایا کہ ’اگر آپ پارٹی کے جانے پہچانے چہرے جو پارٹی کی وجہ شہرت بنے انھیں پیچھے کھینچ دیں گے تو فرق تو پڑے گا۔ اس سے پارٹی کی ساکھ پر یقیناً فرق پڑے گا خصوصاً جب آپ استعفی دینے والے موصوف کو ’معاشی وزرڈ‘ کہتے تھے اور یہ کہ وہ معیشت کو ایک منٹ میں ٹھیک کردیں گے تو ظاہر ہے کہ پارٹی کے وفادار حمایتیوں کو یہ نہایت ناگوار گزرے گا۔

اس کے برعکس بےنظیر شاہ کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اسد عمر کبھی بھی نظریاتی کارکنان میں شمار نہیں ہوتے تھے جیسے حامد خان اور جسٹس وجیح الدین تھے جنھیں پارٹی نے نظر انداز کردیا۔ اس بنا پر مجھے نہیں لگتا کہ پارٹی کے وفادار حمایتیوں کو اس سے کوئی خاص فرق پڑے گا۔‘

عمران خان

’بہت نقصان دہ فیصلہ ثابت ہوگا‘

نجی خبر رساں ادارے ’ڈان نیوز‘ کے ایڈیٹر اشر رحمان کی رائے میں اسد عمر کی رخصت جماعت کے لیے کافی نقصاندہ ثابت ہوگی اور پارٹی کی اب وہ ترقی پسند اور ماڈرن شکل نہیں رہی۔ وزیر خزانہ کے اس فیصلے پر مزید ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں انھیں اس فیصلے کو موخر کرنا چاہیے تھا جتنا وہ کرسکتے تھے یا اس فیصلے کو لینے سے ہی اجتناب کرنا چاہیے تھا۔‘

پاکستان تحریک انصاف بحیثیت جماعت پر اس فیصلے کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے اشر رحمان نے بتایا کہ پارٹی اب مزید ’سُکڑ‘ جائے گی اور ایک شخصیت (عمران خان) کے گرد گھومنے لگ جائے گی جو کہ پہلے بھی تھا مگر اب اس میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔

صحافی عمار مسعود نے عمران خان کے بہت سے قریبی ساتھیوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے ہی انھیں چھوڑ چکے ہیں اور اگر موجودہ کابینہ کا جائزہ لیا جائے تو ’میڈیا پر چلنے والی صدارتی نظام کی بحث میرے خیال میں بے معنی ہے کیونکہ یہ فیصلے جو لیے جارہے ہیں اس کے بعد ملک میں کسی بھی صدارتی نظام کی کوئی ضرورت نہیں۔‘

پاکستان تحریک انصاف نوجوانوں کے لیے بہت بڑی نوید بن کر آئی تھی اور ان میں سے ایک بہت بڑا طبقہ اسد عمر کو پی ٹی آئی کا دماغ تصور کرتا تھا۔ اب یقیناً ان کے اس فیصلے کے بعد ان نوجوانوں کی پارٹی سمیت سیاست میں بھی دلچسپی کم ہوجائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp