آغا سلمان باقر کے ساتھ مکالماتی نشست


استاذِ مکرم ڈاکٹر سفیر حیدر نے جب سے مجلسِ اقبال کا بیڑہ اٹھایا ہے، مجلس سے وابستہ لوگوں میں نئی تازگی اور نئے ولولے کا سا احساس ابھر آیا ہے۔ گو کہ حلقہ اربابِ ذوق جیسے نامور ادبی اکٹھ کا آغاز بھی مجلسِ اقبال کی تنقیدی نشستوں کی روایات کو دیکھتے ہی ہوا تھا اور اب تک مجلس میں ایسی تنقیدی نشستوں کا تسلسل بھی قائم و دائم ہے مگر ڈاکٹر سفیر حیدر صاحب نے آتے ہی طلبا و طالبات کا اہلِ قلم سے مکالماتی نشستوں بعنوان ”چہرہ بچہرہ، رو برو“ کی رِیت ڈالی اور ہر ہفتے یا دو ہفتوں بعد کسی معروف ادیب اور بڑے لکھاری کو اپنے ہاں مدعو کرنا شروع کیا۔

پہلے اجلاس میں بڑے افسانہ نگار جناب اکرام اللہ کو مدعو کیا گیا، دوسرے اجلاس میں فرانسیسی اردو نثرنگار ژولیاں کی دعوت کی گئی، تیسرے اجلاس میں بی بی سی کے نامور رپورٹر انور سن رائے اور ان کی اہلیہ عذرا عباس کو بلایا گیا۔ تینوں پروگرام بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور جامعہ کے علمی و ادبی حلقوں میں مشہور ہوئے۔

اس سلسلے کے چوتھے پروگرام کی ذمہ داری راقم کے ذمے لگائی گئی۔ ناچیز نے موقع ملتے ہی وطنِ عزیز کے نامور ادیب، محقق، نقاد، نثر نگار، سفرنامہ نگار، انشائیہ پرداز، جدید دور کے نئے لہجے میں آزاد نظم کے شاعر اور سب سے بڑھ کر نبیرہ مولانا محمد حسین آزاد، جناب ڈاکٹر آغا سلمان باقر کو دعوتِ صدارت دے ڈالی۔ نگران مجلسِ اقبال نے منظوری دی اور ہم نے تیاری شروع کر دی۔ ایم فل اور ایم اے کے طالبعلموں کو معلومات انگیز اور مفید ترین نشست فراہم کرنے کے لیے ہم نے کوئی چھ گھنٹے ایک ساتھ بِتائے۔

آغا جی کے گھر تشریف لے گئے، ان کے حالات و واقعات و جامع تعارف کے بعد ان کے تحقیقی مقالات، نثر پاروں، سفرناموں اور نظموں پر خوب تکنیکی و تیکھی گفتگو کی۔ بہت کچھ نیا سیکھنے، سننے اور جاننے کو ملا۔ انہوں نے اس بیٹھک کے اختتام پر ”چولستان“ اور ”کشمیر فردوسِ بریں“ کے نام سے دو سفرنامے بھی پیش کیے جو اپنی ہئیت، فن، کردار نگاری، واقعہ نگاری، منظر نگاری، فکشن نگاری اور افسانویت کے حوالے سے منفرد سفرنامے ہیں۔ بھئی میں نے تو ان سفرناموں کے کئی باب گھول گھول کر پئیے ہیں، کیا کہنے۔ ایک سے بڑھ کر ایک سفرنامہ ہے۔

آغا جی سلمان باقر کے ساتھ اس نشست کا پروگرام بروز بدھ دن دو بجے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں طے پایا۔ جب میں ان کے آشیانے پر انہیں مدعو کرنے گیا تو وہیں ان کی اہلیہ محترمہ عندلیب زہرا کو بھی ساتھ تشریف لانے کی دعوت دی۔ وقتِ مقررہ پر آغا جی اور عندلیب جی ایک شاہی جوڑے کی صورت تشریف لے آئے۔ آغا جی نے ہماری فرمائش پر شیروانی اور قراقلی کی ٹوپی زیب تن کر رکھی تھی۔ راہ گزرتے طلبا و طالبات ان سے ملنے کو آگے بڑھتے، ساتھ میں تصویریں بنواتے، کچھ کو ان کی بابت معلوم تھا، کچھ ان کی شخصیت کے ظاہری دبدبے کو دیکھ کر انہیں بڑی شخصیت سمجھ کر ملنے کو ہاتھ بڑھاتے۔

سٹاف روم میں پہنچتے ہی نشست کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ایم اے اور ایم فل کے طلبا و طالبات کے علاوہ شعبہ اردو کے جید اساتذہ بھی محفل میں شریک تھے۔ ہم نے آغا جی کا تعارف کروایا اور پہلا سوال ہی مولانا محمد حسین آزاد کے کابل، ایران و دیگر وسط ایشیائی ممالک کے سرکاری دوروں کی مشکوک حیثیت پر کر دیا۔ آغا جی نے ذرا توقف کیا اور پھر ان دوروں کے متعلق الف سے لے کر یے تک کی روداد طالبعلموں کے گوش گزار کر دی۔

انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے آزاد پہ لگے اس بے بنیاد الزام کو دھونے کے لیے پچیس تیس سال تحقیق کی اور پھر کس طرح پنجاب آرکائیو، انڈیا اور برطانیہ سے انہیں تحریری ثبوت ملے اور یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ مولانا آزاد کو ان وسط ایشیائی ممالک میں روس اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جاسوسی کے لیے ہی بھیجا گیا تھا مگر وہ وہاں مختلف لائیبریریوں کی خاک چھانتے رہے اور مشہورِ زمانہ تصنیف ”دربارِ اکبری“ لکھتے رہے۔

آغا جی سے دوسرا سوال ان کے ادبی سفر کے متعلق کیا کہ کس طرح انہوں نے خود کو تحقیق، تخلیق اور تنقید کے میدانوں میں ثابت قدم رِہ کر اپنا لوہا منوایا۔ اس کے جواب میں انہوں نے مقالاتِ آزاد کی دوسری اور تیسری جِلد مرتب کرنے کے علاوہ اپنے سفرناموں ”دھماکہ لیک سوات“، ”کشمیر فردوسِ بریں“، ”فیری میڈوز“، ”چولستان“ اور ”کیلاش میں چلم جوشی“ سے جڑی زبردست یادوں کو تازہ کیا نیز آزاد نظم اور مولانا آزاد کے متعلق کی گئی اپنی مزید تحقیق کا بھرپور ذکر کیا۔ یہاں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پابند نظم کی موسیقیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر آزاد نظم کے کینوس کی وسعت سے انکار بھی کسی طور ممکن نہیں۔

تیسرا سوال بہت عجیب اور دلچسپ کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کمرے میں بیٹھ کر مشہورِ زمانہ سفر نامہ تحریر کر دیا جائے۔ اس سوال پہ ایک دم زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ آغا جی بھی ذرا سٹپٹائے مگر پھر پُھرتی سے جواب دینے لگے۔ بڑے ادیب اس لیے بڑے نہیں بن جاتے کہ ان کی عمر زیادہ ہوتی ہے یا ان کے حلقے میں تعریف و تحسین کرنے والے لوگ زیادہ ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے بے پایاں اور بے حساب مطالعہ کی بنا پر شہرہ پاتے ہیں۔

اب اس سوال کے جواب کے لیے بھی آغا جی نے ایسے سفرناموں کا باریک بینی سے مطالعہ کر رکھا تھا اور ایک ایک سطر اور ایک ایک پیراگراف کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ برفانی علاقوں کی کٹھن چوٹیوں پر جو حالات انہوں نے اور اس علاقے کے باسیوں نے ہمیشہ دیکھے ہیں، ویسے ان سفرناموں میں بیان نہیں کیے گئے بلکہ شدید مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اصل اور دیانتدارانہ واقعہ نگاری کے اصولوں سے مکمل طور پر انحراف کیا گیا ہے۔

شعبہ فارسی کے جمال احمد نے آخری سوال سفرنامے کی تکنیک کے حوالے سے کیا۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سفرنامہ فکشن اور نثر نگاری کی اعلی ترین قسم ہے جس میں آپ کو بیک وقت کردار نگاری، واقعہ نگاری، منظر نگاری، افسانہ نگاری، ناول نگاری، انشاپردازی، داستان گوئی، آپ بیتی، روداد اور ذاتی خیالات و تجربات و مشاہدات کو زیرِ بحث لانا ہوتا ہے۔ سفرنامہ نگاری سب سے زیادہ دیانتداری اور تاریخی حقائق کی صداقت کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ اس کے قارئین بنا ایسی جگہوں کی سیر کیے اگر وہاں کی معلومات لینا چاہتے ہیں تو انہیں حقیقی اور سچی معلومات ملنی چاہییں۔ اس کے ساتھ ہی اس مکالماتی نشست کا اختتام ہوا اور طلبا و طالبات کو سوال کرنے کی دعوت دی گئی۔ تین چار بچوں نے دلچسپ سوالات کیے جن کے جوابات ان سے بھی زیادہ دلچسپ دیے گئے۔ نشست کے آخر پر میں نے آغا سلمان باقر کے سفرنامے ”چولستان“ کا انتساب پڑھ کر سنایا جس کی آخری چند سطریں کچھ یوں ہیں :

ان سیاہ آبنوسی جلد والی پنہارنوں کے نام

کہ جن کے ننگے پیروں میں آبلے اور سر پر پانی کے گھڑے ہوتے ہیں

ان ساربانوں کے نام جو اپنی بیویوں سے زیادہ اپنی اونٹنیوں سے

پیار کرتے ہیں اور نباہتے ہیں

ہم سیاحوں کے نام

جو اس دشتِ ویراں میں

مسرت تلاش کر کے گیت گاتے ہیں۔ !

آخر پہ نگران مجلسِ اقبال ڈاکٹر سفیر حیدر و دیگر اساتذہ نے آغا سلمان باقر اور ان کی اہلیہ عندلیب زہرا کو پھولوں کا تحفہ پیش کیا اور تمام مہمانانِ گرامی کی تواضع کی گئی۔ اس بھرپور اور کامیاب نشست کے انعقاد پر نگران مجلسِ اقبال ڈھیروں مبارکباد کے مستحق ٹھہرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).