امتحانات، نقل اور تعلیمی نظام


سندھ میں امتحانات کا موسم ہے، نویں، دسویں جماعت کے امتحانات وزیر تعلیم موصوف کے امتحانی مراکز کے دوروں، کس قدر کاپی ”سوشل میڈیا پر امتحان کے حوالے سے بحث“ کمینٹس، میڈیا ہاوسز کے جگا شیر اینکروں کی طعنہ زنی و طنز کے ساتھ خیر خوبی سے حسب معمول گزر گئے اب کالجز میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات شروع ہیں اور اپنے دہائیوں کے ورثہ ”نقل“ کو روکنے کے لیے موثر انتظامات کی نوید بھی سنائی دے رہی تو دوسری طرف انتظامات کا یہ حال ہے کہ جو امتحانی بورڈ امتحانات کا انعقاد کراتے ہیں ان میں سے حیدرآباد کے امتحانی بورڈ نے امیدواروں کو جو امتحان میں بیٹھنے کے لیے اجازت نامے عرف سلپیں بھیجی ہیں ان سلپوں میں ایک اسٹوڈنٹ کی جگہ دوسرے کا فوٹو چپساں ہے لڑکے کے فوٹو کی جگہ لڑکی کا فوٹو ہے، کئی کالجز میں پیپر سے ایک دن پہلے فرسٹ ییئر کے اسٹوڈنٹس کی سلپیں ہی نہیں موصول ہوئیں اور ہر کالج کی انتظامیہ کو سلپوں سے محروم شاگردوں کو امتحانی بورڈ سے اپنی اپنی سلپیں انیس گھنٹوں میں حاصل کر کے بیسویں گھنٹے میں پیپر دینے کو کہا گیا۔

اور ان انیس گھنٹوں میں رات بھی شامل ہے باقی وقت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں شاگردوں کو امتحان میں بیٹھنے کے لیے سلپیں بورڈ آفس سے لینے کی جدوجہد کرنی ہے اور پھر ایسی ایمانداری سے امتحان دینا ہے جیسے وہ پورا سال پڑھے ہیں، بلکہ جیسے انہیں تمام سہولیات کے ساتھ پڑہایا گیا ہو۔ جیسے ان کے سرکاری کالجز کی سائینسی لیبارٹریز بھی سائنسی سامان سے لدی ہوئی رہیں اور کسی بھی کالج میں کبھی لوڈ شیڈنگ میں بچے اگست ستمبر میں پسینے میں شرابور ہوتے کبھی بھی نمکیات کی کمی کا شکار نہ ہوتے بیہوش نہ ہوئے ہوں۔

سچ بات تو یہ ہے کہ سندھ کی تعلیمی تباہی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ جلد ہی میڈیا کی پکڑ یا آنکھ میں آجاتی ہے ورنہ تعلیم کے سرکاری سیکٹر کی بربادی چاروں صوبوں میں ہے لیکن میڈیا کا فوکس سندھ ہے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی سرکاری تعلیمی سیکٹر میں خدمات کا بھی پینڈورا باکس کھل چکا ہے جس میں ہزاروں جعلی داخلے دکھا کر کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ نقل یا تعلیم کا گرتا معیار فقط سندھ کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے ہر اس طبقہ کا مسئلہ ہے جو اپنے بچوں کو 500 روپے امتحانی فیس، بچوں سے ون ڈی۔ون کلر کے پیسے، ون ڈش پارٹی منعقد کرانے والے نجی اسکول کالجوں کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور ان کے بچوں کے اسکولوں کے ساتھ انہیں بچوں، ان کے والدین کے لیے قائم سرکاری ہسپتال بھی سرکاری اسکولوں کی طرح تباہ حالی کا شکار ہو چکے ہیں، اب نہ سرکاری ہسپتالوں میں دوائیاں نہ ہی سرکاری اسکولوں میں سامان و پڑھائی رہی ہے۔ اور نجی تعلیمی شعبے کا بے مہاوت ہاتھی ہے جو سرکاری تعلیمی شعبے کو روندتا چلا جا رہا ہے

سرکاری تعلیمی اداروں کا بجٹ ہوتا ہے ہی تعلیمی بیوروکریسی کے گھر کا ”چولہا جلانے“ کے لیے ہے، اور رعب، دبدبہ، زعم، وڈیرے شاہی کے رویئے جدا، کسی ڈپٹی سیکرٹری تعلیم کا ڈرائیور بھی کالج پرنسپل یا ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی ٹیبل پر مکا مار کر پچھلی تاریخوں میں کسی دوست کے بچے کا داخلہ لے بھی سکتا ہے اور اپنی گاڑی کا دروازہ ”ماسٹر جی سے کھلوا سکتا ہے، باقی سرکاری تعلیمی اداروں کے بجیٹ کا کیا ماتم کریں جو کسی بھی تعلیمی ادارے تک مشکل سے دس فیصد پہنچتا ہے۔ سہولیات نہیں، بجیٹ نہیں، کالیج اسکول ایجوکیشن پر مانیٹرنگ نہیں، تعلیمی امتحانی بورڈ میں کرپشن، نا اھلی کا ذکر ہر زبان پر ہو تو ایسے میں ہم کیایہ کہہ سکتے ہیں کہ نقل جیسے عذاب کا داغ سندھ کی تعلیم سے دھو سکیں گے؟

میرے خیال میں امتحانات میں نقل ان تمام مسائل کاردعمل ہی ہے

اورجب وزارتی سطح پر پہلی بار امتحان میں نقل کے خلاف سرگرمی شروع ہوئی ہے تو ہمارا قومی میڈیا درمیان میں یہ کہتے کود پڑا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے حق میں دلائل اس لیے مضبوط ہو رہے ہیں کیونکہ سندھ کی تعلیمی وزارت نقل کو روک نہیں پا رہی۔ کیا تو دلیل دے دی اینکر صاحب نے! کہاں سے تو ایک اہم آئینی ترمیم کی فرسودگی کا جواز ایسے لے کر آئے۔ جیسے اٹھارویں ترمیم سے پہلے نہ ملک میں ضیاء الحق کے دور میں نقل تھی نہ مشرف دور میں نقل اور امتحانی بورڈ کی کوئی نا اہلی تھی۔

امتحان میں نقل کی لعنت فقط امتحان تک محدود نہیں سمجھنا چاھیے یہ نقل کی ریمک ہمارے پورے تعلیمی نظام کا ایک چھوٹا سا خطرناک حصہ ہے جس کا خاتمہ ہمارے اس تعلیمی نظام پر نظرثانی کیے بنا ناممکن ہے جو تعلیمی نظام دنیا کا فرسودہ ترین نظام بن چکا ہے۔

hafeez۔ kunbhar@gmail۔ com کالم نگار سندھی زبان کے افسانہ نویس، ٹی وی ڈرامہ گار اور اخبارات کے کالم نویس ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).