ہم سازشی مفروضات پر کیوں یقین کرتے ہیں؟


ہم میں سے اکثر نے 65 کی جنگ میں ان سبز پوش بابوں کا ذکر ضرور سنا ہوگا جو دشمن کے داغے گئے گولوں کو ہوا میں ہی پکڑ کر واپس دشمن کی طرف اچھال دیتے تھے۔ یا ان شمشیر بکف گھڑ سواروں کا جنہوں نے اپنی ننگی تلواروں سے دشمن کے جدید اسلحہ بردار فوج کے چھکے چھڑا دیے۔ یا ارض پاک میں ہونے والی ہر دہشت گردی کے پیچھے یہود و ہنود کی ریشہ دوانیاں، اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ڈرامہ، اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ملالہ یوسفزئی پر حملہ کا ڈرامہ، پولیو ویکسین کی حقیقت جو آپ کو سرگوشیوں میں بتائی جاتی ہے۔

مندرجہ بالا تمام مثالیں دراصل سازشی مفروضات ”Conspiracy Theories“ کی مختلف اشکال ہیں۔ بحیثیت قوم، اس پاک سرزمین کے باسی، انتہا کے توہم پرست اور سازشی مفروضات پر حرف بہ حرف یقین کرنے والے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے، سر دست ہم سازشی مفروضات پر یقین کرنے والوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میرے لیے ہمیشہ سے یہ اچنبھے کی بات تھی کہ کوئی بھی شخص کیسے ان سازشی مفروضات پر مکمل ایمان لے آتا ہے اور تمام عمر اسی ذہنی خول میں مقید رہتا ہے۔ آپ کچھ بھی کر لیں، لاکھ دلائل سے بات کر لیں، مصدقہ حوالے لا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کر لیں، مگر یہ افراد ان نظریات و مفروضات سے پیچھے ہٹنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔

آئیے ان افراد کے ایسے رویے کی وجوہات جانتے ہیں۔ سازشی مفروضات پر ماہرین نفسیات کی طرف سے کافی تحقیقی کام کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق سازشی مفروضات پر یقین کے 3 بڑے مقاصد ہو سکتے ہیں :

تفہیم اور تیقن کی خواہش:

انسان فطرتا حقیقت کا متلاشی ہے۔ ہر ذی شعور اپنے دماغ میں حالات و واقعات کے متعلق مختلف سوالات کے جوابات تلاش کرتا رہتا ہے۔ مثلا اسی دن کیوں بارش ہوتی ہے جس دن مجھے باہر جانا ہو؟ اگر کوئی شخص میری بات نہیں سمجھ پا رہا تو ایسا کیوں ہے؟

ہمارا دماغ فطرتاً ان سوالات کے جواب تیار کر رہا ہوتا ہے جو کہ شاید درست نہ ہوں لیکن ہماری ذہنیت اور خواہشات سے قریب تر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ بارش اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ میں بد قسمت ہوں، میری بات وہ شخص اس لیے سمجھ نہیں پا رہا کونکہ وہ سن ہی نہیں رہا۔

اس طرح ہم سب ذہن میں غلط عقائد (وہ چیزیں جن کی درستی کا ہمیں یقین ہے لیکن وہ حقائق کے مطابق غلط ہیں) کی پرورش کرتے ہیں۔ سازشی مفروضات انہی غلط عقائد کا تسلسل ہیں جو انسان اپنی خواہشات کے مطابق اپنے ذہن میں پال لیتا ہے۔ ان مفروضات پر ایمان لانے والے اپنے یقین پر اصرار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے ان نظریات و مفروضات پر یقین تک پہنچنے کے لیے کافی محنت کی ہوتی ہے۔ جب انسان کسی بھی واقعے کی ویسی ہی وضاحت دیکھتا یا سنتا ہے جو اس کی خواہشات کے مطابق ہو تو فورا یقین کر لیتا ہے۔ کسی چیز کی وجہ معلوم نا ہونا کسی بھی شخص کے لیے ایک پریشان کن صورت ہوتی ہے اور سازشی مفروضات انسان کی تفہیم کے جذبے کو حتی الامکان تسکین پہنچاتی ہیں۔

اختیاراور تحفظ کی خواہش:

انسان اپنی مرضی اور اختیار کا مالک رہنا چاہتا ہے۔ سازشی مفروضات اپنے ماننے والوں کو اختیار اور تحفظ کا احساس دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر گلوبل وارمنگ واقعی میں ایک مسئلہ ہے تو مجھے اپنے طرز زندگی میں ناگوار تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ جیسا کہ پیٹرول پر چلنے والی چیزوں کا کم سے کم استعمال، ائیر کنڈیشنر کا استعمال بند کرنا، کم سے کم بجلی اور مصنوعی توانائی کا استعمال وغیرہ۔ لیکن اگر کوئی سیاست دان یا رہنما مجھے یہ باور کرا لے کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں تو میں اپنا طرز زندگی جیسے میں چاہوں رکھ سکتا ہوں۔ ایک طرح سے سازشی مفروضات مجھے حقائق سے نظریں چرانے اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے چلانے میں مدد کرتے ہیں۔

خود اعتمادی کو بحال رکھنے کی خواہش:

تحقیق کے مطابق سماجی تنہائی کا شکار لوگ سازشی مفروضات پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ہر شخص میں خود اعتمادی کو برقرار رکھنے کی چاہت ہوتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ اسے اہمیت دی جائے اور اس کی وجہ سے اس کے چاہنے والوں کی زندگی میں بہتری آئے۔ اس طرح انسان اپنی وقعت اور اہمیت کے بارے میں دلی اطمینان محسوس کرتا ہے۔

فرض کرتے ہیں آپ کے قرب و جوار میں کوئی ایسا شخص ہے جو حقیقی زندگی میں تنہائی کا شکار ہے، اس کے مطابق معاشرے میں اس کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنا اس کا حق ہے۔ ایسا شخص زیادہ تر اپنا وقت سازشی مفروضات پر مبنی مواد کو دیکھنے اور سمجھنے میں صرف کرے گا۔ ایک طرح سے یہ اس کے لیے خود اعتمادی برقرار رکھنے کا بہانہ ہے تا کہ وہ خود کو سماج میں متعلق فرض کرے۔ اس مقصد کا اطلاق آپ اپنے ملک میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے مطابق پوری دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور ہم تن تنہا سب کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

قصہ مختصر، ہم سازشی مفروضات پر یقین کرنے والوں کے بارے میں جتنا بھی جان لیں، اصل سوال یہی ہے کہ ان کہ ساتھ کیسے پیش آیا جائے۔ تو صاحبوں، اگلی دفعہ اگر کوئی شخص آپ کے سامنے سازشی مفروضات پر مبنی گفتگو شروع کر دے، ویسے آج کل اس قبیلہ کے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، تو بہترین طریقہ سکوت اور خاموشی سے سے سر ہلانا ہی ہے۔ اپنی مختصر زندگی میں یہی سیکھا ہے، آپ کو اختلاف ہے تو ان سے بحث کر کے قائل کرنے کی کوشش کر لیں اور ہمیں نتائج سے آگاہ کریں۔

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں Current Directions in Psychological Science by Douglas، K۔ M، Sutton and Cichocka سے مدد لی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).