پی ٹی آئی کا دماغ نہیں رہا


جناب اسد عمر کو پی ٹی آئی کا دماغ کہا جاتا تھا۔ یہ میں نہیں، وہ کہتے تھے جو محترمہ ریحام خان کو مادر ملت بھی کہہ لیتے تھے۔ مجھے اگر اپنے ملک کی معیشت کے بارے میں انتہا درجے کی تشویش نہ ہوتی تو میں اس وقت قہقہے لگاتا مگر یہ مقا م افسوس کا ہے۔ آہ و بکا کا ہے کہ ایک شخص ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے اور قوم کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے کے بعد اس وقت باعزت انداز میں رخصت کر دیا گیا ہے جب بجٹ کی تیاری کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہ غلط موقعے پر لیا گیا ایک درست فیصلہ تھا، درست وقت وہ ہوتا جب بجٹ پیش کر دیا جاتا مگر بھیجنے والی حقیقی قوتوں کو یقین ہو گیا ہے کہ جناب اسد عمر میں نیا بجٹ تیا ر کرنے کی اہلیت ہی نہیں۔ عین ممکن ہے اسد عمر کے رخصت ہونے کے بعد بجٹ اتنا برا اور ناقابل برداشت نہ رہے جتنی اُمید کی جا رہی ہے۔ جواز تو یہ بھی درست ہے کہ جب خزانہ ہی نہیں رہا تو پھر وزیر خزانہ کی بھی ضرورت نہیں۔

اچھے اور نفیس لوگ چلے جانے والوں کے لئے برے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ میں نے بھی یہاں کچھ اچھی باتیں تلاش کرنے کے لئے گھنٹوں صرف کئے ہیں۔ پہلی اچھی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے نو مہینوں میں پہلا درست فیصلہ ڈیلیور کیا ہے اور اسد عمر صاحب نے اسے قبول کیا ہے مگر اس کے بعد جناب وزیراعظم نے انہیں پیش کش کی کہ وہ خزانے کی بجائے توانائی کے وزیر بن جائیں۔ اب یہاں پاکستا ن میں براہ راست توانائی کی کوئی وزارت نہیں۔ اس وزارت کی تشریح وزارت پٹرولیم کے طور پر بھی کی جا سکتی ہے اور وزارت بجلی و پانی کے طور پر بھی۔

اسد عمر کی ذاتی خوبی ہے اور پوری پاکستانی قوم پر ان کا احسان ہے کہ انہوں نے یہ وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا ورنہ انہوں نے جو حال خزانے کا کیا ہے وہی حال توانائی کے شعبے کا کرتے اور جس طرح انہوں نے ریکارڈ مہنگائی کی ہے وہ یقینی طور پر پٹرول کی قلت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے یا بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں پیپلزپارٹی دور کا ریکارڈ توڑ دیتے۔ اس وقت بھی بطور وزیر خزانہ ان کی توانائی کے شعبے میں خدمات کا اندازہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سرکلر ڈیبٹ کی صورت میں لگایا جا سکتا ہے۔

اگر تجویز بجلی اور پانی کی وزارت ہی کی تھی تو وزیراعظم نے وزارت بجلی و پانی کی تباہی کے لئے پاکستان کے سب سے پہلے آمر کے بیٹے کی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا، عمر ایوب خان توانائی کے شعبے کا کم و بیش وہی حال کریں گے جو معیشت کا اسد عمر نے کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس تسلیم کرنا ہوگا کہ محکمے کو تباہ کرنے میں ان کی دلچسپی اور رفتار بہرحال اسد عمر سے کم ہے۔ تجویز تھی کہ اسد عمر کو سمندر کی لہریں گننے کی وزارت دے دی جائے مگراس کے بعد کراچی کی خیر نہیں تھی۔

ہمارے نیوز چینلز اس ہفتے کے شروع میں ہی دعویٰ کر رہے تھے کہ اسد عمر رخصت ہو رہے ہیں مگر حکومت نہیں مان رہی تھی بلکہ دو چینلوں کو تو اس پر باقاعدہ نوٹس بھی جاری کر دئیے گئے مگریہ پی ٹی آئی کا ہی اعزازہے کہ اس کے بارے ہر غلط خبر، درست خبر ثابت ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نیا وزیر خزانہ کون ہو گا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق جناب شوکت ترین موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر بے عزت ہونے کی یہ عظیم پیش کش مسترد کر چکے ہیں۔

دوسری طرف مشرف دور کے ہئیر اسٹائیل کنگ ڈاکٹر سلمان شاہ نے حکومت کو مشورے دینے شروع کر دئیے ہیں کہ وہ فوری طور پر آئی ایم ایف کا پیکج قبول کر لے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فوری طور پر نئے وزیر خزانہ کا تقرر کرے ۔ اگر سلمان شاہ آئی ایم ایف کے ذریعے توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو مشرف دور کا ایک اور وزیر موجودہ سیٹ اپ کا حصہ بن جائے گا اور رفتہ رفتہ اس کابینہ میں اجنبی شاید خان صاحب ہی رہ جائیں۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسد عمر کی رخصتی کی وجہ معیشت کی بری حالت نہیں بلکہ پارٹی کی اندرونی دھڑے بندی ہے کہ اسد عمر، جہانگیر ترین کے مخالف تصور کئے جاتے تھے۔

جناب اسد عمر پی ٹی آئی کا دماغ سمجھے جاتے تھے، سو وہ اب نہیں رہے۔ ایک عالی دماغ تھا، نہ رہا۔ سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی دماغ کے ساتھ اس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی تو بغیر دماغ کے کیا کرے گی۔ ویسے بھی اکنامکس کے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول کے تحت ایسے دماغ بہت قیمتی سمجھے جاتے ہیں جو ہزاروں سروں سے چند گرام ملیں۔ اسد عمر پٹرول چوالیس روپے لیٹر بیچنے کے حامی تھے اور اپنے خواب یوں پورے کئے کہ ڈالر ایک سو چوالیس کا کر گئے۔ جاتے جاتے انہوں نے آخری ’خوش خبری‘ یہ سنائی تھی کہ ہر وہ شے مہنگی کی جائے گی جو نواز لیگ نے نہیں کی تھی۔

مجھے مولانا فضل الرحمان سے (غلط یا درست طور پر) منسوب بات یاد آگئی کہ اسد عمر ملک کا نااہل ترین آدمی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں اس سے زیادہ اہل اور باصلاحیت بھی کوئی نہیں۔ حمزہ علی عباسی نے کہا ہے کہ پیغام بہت اونچا اور واضح ہے کہ چاہے تم پارٹی میں کتنا ہی بڑا نام کیوں نہیں ہو، چاہے تم وزیراعظم عمران خان کے کتنے ہی قریب کیوں نہیں ہو،تم توقعات کے مطابق ڈیلیور نہیں کرو گے تو تمہیں جانا پڑے گا۔ مجھے بعض لوگوں کی ’کوا سفید‘ کرنے کی صلاحیت پر رشک آتا ہے جو گوبر کے بطور خوراک فوائد بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ چاہے خود کو کتنی ہی بڑی توپ چیز کیوں نہ سمجھ رہے ہوں آپ کو اقتدار کی خاطر قربان کیا جا سکتا ہے۔ جہاں جہانگیر ترین کی قربانی دی جا چکی ہو وہاں اسد عمر کی رخصتی کیا معنی رکھتی ہے۔ غیر مصدقہ قول کے مطابق بلی کے جب پاوں جلنے لگتے ہیں تو وہ بچوں کوپیروں تلے دبا لیتی ہے۔

وزیراعظم نے پٹرولیم کے وزیر غلام سرور خان سے بھی استعفا لے لیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اسد عمر کو پٹرولیم کا وزیر ہی بنانا چاہتے تھے مگر اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حکومت ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے میں بہت سنجیدہ ہے اور وہ سب سے پہلے نئے وزیروں کی نئی نوکریاں پیدا کر رہی ہے۔ ویسے اگر آپ مجھ سے پوچھیں تونام چاہے سلمان شاہ، حفیظ پاشا ، حفیظ شیخ ، شمشاد اختر اور عشرت حسین کے آتے رہیں، میری نظر میں اسد عمر کا ایک ہی متبادل ہے اور وہ مولانا خادم رضوی ہیں جنہوں نے اسد عمر کے مقابلے میں ہی اقتصادی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو قرضوں اور سود سے پاک کرنے کا مقدس اور بابرکت راستہ تجویز کیا تھا کہ حکومت تمام لئے گئے سودی قرضوں کے معاہدے منسوخ کر دے، سود تو ہرگز نہ دے اور اصل قرض بارے بھی کہا جائے کہ جب پیسے ہوں گے تب دے دیں گے اور اگر کوئی قرض خواہ اصرار کرے تو اسے کہہ دیا جائے’ اے آیا پیا جے غوری‘، ہم اعلانات اور کارکردگی کے حوالے سے ایسے ہی آئی کیو لیول والے نئے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).