کراچی: ’صاف پانی آتا تو بچوں کو سکول بھیجتی‘


ماریہ

ماریہ کا کہنا تھا کہ صاف پانی پر آنے والے اخراجات کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج پا رہیں

پانی سے محروم کراچی میں بسنے والے کچھ خاندان ایسے بھی ہیں کہ جنھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس بنیادی ضرورت سے محرومی ان کے بچوں کے مستقبل کو بھی تاریک کر سکتی ہے۔

ماریہ اور محمد عباس اختر کالونی کے رہائشی ہیں۔ یہاں کے رہائشیوں کو جہاں علاقے میں بہنے والے گندے نالے کی وجہ سے ملیریا اور ڈینگی جیسے موذی امراض کا سامنا تھا وہیں اب ان کے نلکوں اور لائنوں میں وہی گندا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

ماریہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ صاف پانی کے خرچے نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی کے سیوریج نظام پر چیف جسٹس کی تنبیہ

کراچی والے گرمی سے بے حال

اب کراچی وہ نہیں رہا

’میرا شوہر مہینے کے 20 ہزار روپے کماتا ہے، جس میں سے آٹھ ہزار گھر کا کرایہ اور تین سے پانچ ہزار ہر مہینے کا پانی کا خرچہ ہوتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’خرچہ بڑھ گیا ہے اس لیے بیٹی کو سکول سے نکال لیا ہے، اگر پانی صاف آتا تو بیٹی کو تعلیم ضرور دلواتی۔‘

ماریہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کاش ہمیں پانی خریدنا نہ پڑتا لیکن کیا کریں بچوں کی زندگی کے ساتھ بھی نہیں کھیل سکتے‘۔

اختر کالونی کی تنگ گلیوں میں جابجا بچے اور خواتین ہاتھوں میں پانی کے کین لئے نظر آتے ہیں۔

فاطمہ بھی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’پانی پہلی بات تو یہ ہے کہ آتا ہی نہیں، اور کبھی پورے ہفتے میں آدھا گھنٹہ آ بھی جائے تو اتنا گندا اور بدبودار ہوتا ہے کہ وہ انسان تو کیا جانور بھی پیے تو بیمار ہو جائے۔‘

آلودہ پانی

ان کے مطابق ’ہمیں تو اب نہانے کے لیے بھی پانی خریدنا ہی پڑتا ہے۔ ایک گدھا گاڑی کی ٹینکی کم سے کم 2500 روپے کی آتی ہے اور اگر پینے کا پانی خریدو تو وہ خرچہ الگ ہے۔‘

فاطمہ نے بتایا کہ ٹینکر کا پانی پینے سے ان کے بچے بیمار ہونے لگے تھے لہٰذا اب کالونی کی دکان سے فلٹر والا پانی خریدنا پڑتا ہے۔ ’ٹینکر کے پانی میں نمک زیادہ ہوتا ہے، اکثر نہا کر بھی لگتا ہے کہ نہائے ہی نہیں۔‘

اس بارے میں جب کراچی واٹر سپلائی بورڈ سے بات کی گئی تو قائم مقام مینیجنگ ڈاریکٹر رضوان حیدر کا کہنا تھا کہ ’لوگ اپنے طور پر غیر مستند کنکشن لگوا لیتے ہیں اور پانی کی بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ شہریوں کے اندر احساس ذمہ داری کی کمی ہے اور لوگ اگر دیگر شہریوں کا احساس کریں اور غیر قانونی عمل سے باز رہیں تو پانی کی آلودگی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کراچی میں پانی کی قلت ہے اور لائنیں ہمیشہ پانی سے بھری نہیں ہوتیں، شہری ان اوقات میں ڈونکی پمپ سے پانی کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں اور سیوریج کنکشن پکا نہ ہونے کہ باعث اکثر سیوریج کا پانی کھنچ کر صاف پانی کی لائنوں میں آجاتا ہے جو آلودگی کا باعث بنتا ہے۔‘

آلودہ پانی

رضوان حیدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’غیر قانونی گٹر لائنیں، پانی کی چوری کے لیے لائنوں میں سوراخ کر کے پلیٹ ڈالنا، 15 شہریوں کے لیے موجود کنکشن پر اونچے فلیٹس بنانا اور لائن کو ہزار شہریوں کے لیے استعمال کرنا، ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے سیوریج لائنیں ابلتی ہیں اور زنگ آلود ہونے کہ باعث صاف پانی کی لائنوں میں گندا پانی شامل ہونے کا باعث بنتی ہیں۔‘

’90 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں‘

کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں فراہم کیا جانے والا 90 فیصد پانی ماحولیاتی اور آبی آلودگی کے باعث پینے کے قابل نہیں۔

2017 میں سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی کے پانی کے حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا تاکہ اس سلسلے میں حکومتی کارکردگی میں جھول کی وجہ جانی جا سکے سکیں۔

اس سلسلے میں شہر کے مختلف علاقوں سے پانی کے نمونے جمع کر کے تجزیے کے لیے بھیجے گئے تھے اور رپورٹ کے مطابق ان نمونوں میں فلٹر کا پانی، پمپنگ سٹیشن سے فراہم کیا جانے والا پانی اور اس کے علاوہ زیر زمین موجود پانی شامل تھا۔ ان 118 نمونوں میں سے 90.7% انسانی استعمال کے لیے ناموزوں قرار دیے گئے تھے۔

اس کی بڑی وجہ کلورین کی نامناسب مقدار، صاف اور گندے پانی کی ملاوٹ اور ہائیڈرنٹ پمپس کی صفائی میں کوتاہی قرار دی گئی تھی۔

ناجائز ہائیڈرنٹس اور صفائی کا معاملہ

دو کروڑ سے زائد کی آبادی والے کراچی شہر کو کل چھ واٹر ہائیڈرنٹس کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے لیکن ان ہائیڈرنٹس میں بھی صفائی کے ناقص انتظامات کی شکایات مسلسل سامنے آتی رہتی ہیں۔

کراچی کے سب سے گنجان آباد ضلعے ضلع وسطی میں سخی حسن ہائیڈرنٹ سے پانی حاصل کرنے والے ایک شہری کا کہنا تھا کہ ’ہائیڈرنٹ کے آس پاس شدید تعفن اٹھتا ہے، شاید ہی کبھی اس کی صفائی کی گئی ہو۔‘

خیال رہے کہ یہ وہی ہائیڈرنٹ ہے جس سے گزشتہ برس ایک کتے کی لاش ملنے کی خبریں سامنے آئی تھیں جن کا واٹر بورڈ کے حکام نے نوٹس لیتے ہوئے ہائیڈرنٹ کی صفائی اور نگرانی کے احکامات جاری کیے تھے۔

آلودہ پانی

ان چھ سرکاری ہائیڈرنٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 150 سے زائد ناجائز ہائیڈرنٹس بھی کراچی کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ملازم اور پیپلز لیبر یونین کے عہدیدار محسن رضا کا کہنا ہے کہ ’کراچی میں جہاں ٹینکر مافیا ہے وہیں ہائیڈرنٹ مافیا بھی موجود ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کمپنی کے نام پر پانی کی چوری، شہریوں کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی اور قرضوں میں جکڑا ہوا واٹر بورڈ، یہ تمام عوامل ہیں جن کے باعث ہائیڈرنٹس کی صفائی اور حکومت کی جانب سے شہریوں کو پانی کی منصفانہ انداز میں فراہمی ممکن نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp