انڈونیشیا کا وہ گاؤں جہاں بہروں کی اپنی زبان ہے


کولوک گیتار نے اپنے بازوؤں کی نمائش کرتے ہوئے چھاتی پھلائی اور جھگڑالو طریقے سے جبڑا ہلایا۔ حالانکہ بالی کا یہ بوڑھا آدمی فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھا تھا، ان کا انداز بالکل ایک جارحانہ ککڑ جیسا تھا۔

ان کے بھتیجے وسنو نے مسکرا کر کہا ’ان کو بڑا سخت جان مانا جاتا تھا۔ یہ مارشل آرٹس کے ماہر ہونے پر مشہور تھے اور ناریل کو ہاتھ سے آدھے میں توڑ سکتے تھے۔‘

کولوک گیتار نے ناریل کے درختوں کی طرف اشارہ کیا اور اپنی کھردری انگلیوں سے مٹھی بنا کر خیالی ناریل کو بے دردی سے کاٹ دیا۔ دائرے میں زمین پر بیٹھے دوست تالیاں بجانے لگے۔ ان کی ہنسی اور وسنو کے انڈونیشین ترجمان کو چھوڑ کر پوری گفگتگو ایک لفظ کہے بغیر ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

پانچ جسمانی خوبیاں جو کم لوگوں میں ہی پائی جاتی ہیں

بے نام زبان کو شناخت مل گئی

ایسی زبان جو صرف تین لوگ بولتے ہیں

کاتا کولوک، جس کے معنی انڈونیشیا میں ’بہروں کی زبان‘ ہے جو اس وقت دنیا میں صرف 44 لوگوں کے لیے بنیادی ذرائع ابلاغ ہے۔ تقریباً چھ نسلوں سے بینگ کالا کی آبادی میں معمول سے زیادہ بہرے پیدا ہو رہے ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق یہ ایک لعنت ہے لیکن سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ ایک جینیاتی کیفیت ہے (ڈی ایف این بی 3 کے نام سے) جو کہ دہائیوں کے ساتھ اب یہاں کے 50 میں سے ایک بچے کو ہوتی ہے۔

لیکن بہت طریقوں میں یہ پیدائشی بہرے، جن کو گاؤں والے کولوک (بہرا) کہتے ہیں، باقی علاقوں میں بہرے لوگوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔ یہ اس لیے کہ بینگ کالا کے پہاڑی گاؤں میں آدھے سے زیادہ سننے والوں نے بھی کاتا کولوک سیکھی ہے تاکہ وہ اپنے بہرے خاندان والوں اور دوستوس سے بات کر سکیں۔

بہت کم سیاح ایسے ہوتے ہیں جو شمالی بالی کے دور دراز ساحلوں تک آتے ہیں، جو کہ اس جزیرے کے سب سے پسماندہ علاقوں میں سے ہے۔

بینگ کالا کے زیادہ تر کولوک کا ذریعہ آمدن کھيتی باڑی یا مزدوری ہے لیکن انھیں گاؤں والوں نے چوکیدار اور گورکن کے کام پر بھی لگایا ہے۔ آج جہاں کولوک گیتار اپنے مارشل آرٹس کے دن یاد کر رہے ہیں، وہ اور ان کے دوست بینگ کالا کے مضافات میں پورا دالم (موت کا مندر) میں ایک جنازہ کا انتظار کر رہے ہیں۔

کولوک گیتار ہاتھ سے کراٹے کرتے ہوئے اپنی کہانی سناتے گئے اور وسنو ان کا ترجمہ کرتے گئے۔ ’ان کی جوانی میں یہ پورے جزیرے میں پھر کر مارشل آرٹس کے مظاہرے کرتے ہوئے تھوڑے بہت پیسے کما لیتے تھے۔ ان کو بہرے بھی ملتے تھے لیکن یہ ان سے بات نہیں کر پاتے تھے کیونکہ ان کی اشاروں کی زبان بالکل اس سے مختلف تھی جو بینگ کالا میں استعمال کی جاتی ہے۔ وہ بہرے خود کو بہت اکیلا محسوس کرتے تھے کیونکہ وہ صرف اپنے خاندان کے ایک یا دو لوگوں سے بات کر سکتے تھے۔‘

کیتوت کانتا بینگ کالا کے ڈیف الائنس کے ترجمان ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’اگر آپ کی قسمت میں بہرے پیدا ہونا لکھا ہے، تو یہ رہنے کے لیے دنیا میں سب سے اچھی جگہ ہے۔‘

سننے والوں کو ’اینگت‘ بلایا جاتا ہے اور آپ گاؤں میں جہاں بھی ہوں آپ کو کولوک اور اینگت اکٹھے بیٹھے ’بہروں کی زبان‘ می گپ شپ لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چاہے آپ سکول جائیں، مندر جائیں یا کسی چھوٹے ڈھابے پر کافی پیئیں، آپ کو بہرے اور سننے والے ساتھ بیٹھے خاموشی سے پرجوش گفتگو کرتے ہوئے اور قہقے لگاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

کاتا کولوک کے اشارے اتنے ظاہر ہوتے ہیں کہ کسی نئے آنے والے کو بھی سمجھ آ جائیں۔ ’مرد‘ کے لیے نشان ایک سیدھی کھڑی انگلی ہے جبکہ ’باپ‘ کے لیے اسی انگلی کو موڑ کر مونچھ بنا لی جاتی ہے۔ ’عورت‘ کے لیے دو انگلیوں کے بیچ تھوڑی جگہ ہوتی ہے اور ’ماں‘ کے لیے تھامی ہوئی چھاتی۔ ’پیاس‘ کو گلے پر ہاتھ پھیرنے سے دکھایا جاتا ہے جبکہ ’کافی‘ کے لیے پیشانی پر انگلی رکھ کر گھمایا جاتا ہے، جیسے ہم پاگل کا اشارہ کرتے ہیں۔

کاتا کولوک نے وقت کے ساتھ خود ترقی کی ہے اور گاؤں کے سب سے باتونی اور پر خیال لوگ اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کا ایک اور اثر یہ ہے کہ یہ گاؤں قابل اور پھرتیلے فنکاروں سے بھرا ہوا ہے۔

کیتوت کانتا نے مجھے بتایا ’کولوک اور انگیت کو گاؤں میں کام کرنے کی برابر تنخواہ ملتی ہے لیکن بہرے لوگوں کے لیے گاؤں سے باہر نوکری ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ یہاں دن کے تقریباً پانچ امریکی ڈالر پر گذارہ کرنا کبھی کبھی تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

تاہم آج کولوک گیتار اور اس کے چاروں دوستوں کی قسمت اچھی ہے۔ انھیں قبر کھودنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ بالی کے ہندو عموماً اپنے مردوں کو جلاتے ہیں لیکن یہ مہنگی تقریب ہے۔ تو نیومان ودیارسا کے بیٹوں نے اپنے والد کو دفنانے سے ان کو جلانے کا خرچا بچانا ہو گا۔

بالی میں جنازہ اکثر باہر کے لوگوں کو عجیب لگتا ہے کیونکہ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ خوشی کا موقع ہے۔

بالی کے رہائشیوں کا ماننا ہے کہ اگر مرنے والے کی روح کو اپنے خاندان والوں کے غم کا احساس ہو جائے تو اس کا اگلے جنم میں جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بالی کے لوگ اس تقریب کو بھی اسی خوش مزاجی سے مناتے ہیں جیسے باقی سب کو۔

اسی وجہ سے کولوک گیتار اور ان کے دوست کولوک سدرما کا قبر کے پاس مسخرے کرنے کو برا نہیں منایا گیا۔ قریبی خاندان بھی ہنس رہا تھا۔ انھوں نے لاش کو خیال سے قبر میں اتارا اور کولوک سدرما نے قبر کے اندر اتر کر اس کی آنکھوں پر آئینے رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان آئینوں سے اگلے جنم میں مردے کی بینائی صاف ہو گی۔ تعجب کی بات ہے کہ کانوں کے لیے کوئی ایسی رسم نہیں۔

وسنو نے مجھے بتایا ’سننے والے کہا کرتے تھے کہ کولوک قبرستان میں بھٹکنے والے جنوں سے بات کر سکتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ ان کو بس نڈر اور سخت جان سمجھا جاتا ہے۔‘

بینگ کالا کے گاؤں والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے بہرے دوستوں پر ان ڈراؤنی آوازوں کا، قبروں سے آنے والی سرگوشیوں کا اور ان بد روحوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا جو لوگوں میں بدحواسی پیدا کرتی ہیں۔

کیتوت کانتا مفت میں بچوں کو کاتا کولوک سکھاتے ہیں۔ نیدرلینڈز میں رادبود یونیورسٹی کے سینٹر فار لینگویج سٹڈیز میں محقق کونی ڈے نے گذشتہ دہائی میں متعدد دفعہ یہاں آ کر کیتوت کانتا کی مدد کی ہے تاکہ وہ کولوک بچوں کی سکولوں میں شمولیت بڑھا سکیں اور سننے والے بچوں کو کاتا کولوک سکھا سکیں۔

گاؤں میں کے ای ایم کے نام سے ایک کرافٹ سینٹر بھی موجود ہے جہاں کئی کولوک خواتین مختلف ٹیکسٹائلز کو روایتی طریقوں سے بنتی ہیں۔ اس سینٹر پر کبھی کبھار سیاحوں کے گروہ آتے ہیں جو کولوک مارشل آرٹس دیکھنے اور جانگر کولوک نام کا ایک خاص ناچ دیکھنے آتے ہیں جو کہ مقامی سطح پر مشہور ہے اور خطے کے ہوٹلوں اور سرکاری دفاتر میں بھی کیا جاتا ہے۔

ماہرینِ لسانيات نے کہا ہے کہ کاتا کولوک زبان کا، بالکل ان کے ناچ کی طرح، باقی اشارے والی زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

رادبود یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے والی ہانا لتزن برگر اس گاؤں میں چار مرتبہ طویل مدت گزارنے کے بعد کاتا کولوک پوری سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’کاتا کولوک پر انڈونیشین، بالینیز یا پھر گاؤں کے باہر بولی جانے والی اشاروں کی زبان کا بہت کم اثر ہے۔ کاتا کولوک کی کثرت کا تقاضا لگایا جا سکتا ہے ان کے ناموں سے منسلک اشاروں سے۔

’تمام کولوک لوگوں کو کسی نام کے اشارے سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام بچپن میں ان ہی کے اپنوں میں سے کوئی دیتا ہے لیکن زندگی میں آگے جا کر بدل سکتا ہے۔ یہ عام طور پر کسی جسمانی خصوصیت یا عادت سے جڑا ہوتا ہے۔‘

مثلاً کولوک گیتار کو منھ کے سامنے ہاتھ رکھ کر آگے کی طرف اشارہ کرنے سے پہچانا جاتا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ شاید چونچ لگے لیکن میں نے بینگ کالا کی پتلی گلیوں میں جب بھی ان کو دیکھا ہے، یہ اکثر اپنی مارشل آرٹس کی اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔

78 سالہ کولوک گیتار اپنی زیادہ تر مارشل آرٹس کے ہنر بھول گئے ہیں لیکن علاقے میں اب بھی ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ ان کو پانی کی نالیوں کی دیکھ بهال کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، جو کہ جزیرے کے اس بنجر شمالی علاقے میں ان کے معاشرے کے لیے بہت اہم ہے۔ جب کوئی پائپ ٹوٹ جاتا ہے تو ان کا کام ہے کہ پہاڑوں میں اوپر جا کر معلوم کریں کہ مسئلہ کہاں ہے۔ اکثر وجہ ہوتی ہے کہ پڑوس کے گاؤں میں سے کوئی پانی اپنی طرف موڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس بوڑھے آدمی نے اشاروں میں مجھے کہا ’میں جب ان کو پکڑتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ تشدد نہ ہو لیکن مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو معلوم ہے کہ کولوک سے لڑائی نہیں کرنی۔ یہ ایک کہا اصول ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp