نئے نظام کی لاحاصل بحث!


سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری میڈیا پر صدارتی نظام پر ہونے والی بحث کو وقت کا ضیاع قرار دیتے رہے لیکن یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ اس بحث کا اس مرحلے پر آغاز کیونکر اور کیسے ہوا؟۔کیایہ محض اتفاق ہے کہ 18ویں ترمیم کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے شدید ذہنی تحفظات کے بعد حکومتی حلقوں کا بھی اصرار ہے کہ متذکرہ ترمیم میں صوبوں کو امیر اور وفاق کو غریب کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

اگرچہ اس ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت جیسے کلیدی شعبے قریباً صوبوں کی ذمہ داری بن چکے ہیں اس کے باوجود یہ شکایت ہے کہ صوبے ملنے والی رقوم ان پر خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں بنا سکے۔ صورتحال یہ ہے کہ وفاق کے پاس ترقیاتی کاموں اور دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔

شاید اسی بناپر رواں سال کے دوران حکومت نے پی ایس ڈی پی فنڈز میں250 ارب کی کمی کی ہے تاکہ دفاع اور دیگراخراجات کے لیے رقم نکالی جا سکے گویا کہ جو رقم عوام کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لیے مختص ہے وہ بھی دوسری مدات میں خرچ کی جاسکے۔ پیپلزپارٹی جو سندھ میں برسراقتدار ہے وہاں بھی وفاق نے اس قسم کی مداخلت کی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کا بڑا حصہ سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہی نہیں ہے۔

بلاول بھٹو رطب اللسان ہیں کہ اگر 18ویں ترمیم کو چھیڑاگیا تو پیپلز پارٹی تحریک چلائے گی۔ آئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے اسے بہتر بنانے کے لیے باہمی اتفاق رائے سے ترامیم کی جا سکتی ہیں۔1973ء کے آئین میں 18ویں ترمیم پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں شامل کی گئی تھی۔ لگتا ہے ان دعوؤں کے باوجود حکومت 18ویں ترمیم کے خاتمے کی شدید خواہش مند ہے لیکن اس ضمن میں بات اس لیے نہیں بن رہی کہ وہ ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے قائم کرنے سے یکسر قاصر ہے۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے علاوہ چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی جماعتیں جو تحریک انصاف کی حکومت کی اتحادی بھی ہیںاس کی مخالفت کر رہی ہیں لہٰذا بوکھلاہٹ میں حکومتی حلقوں نے صدارتی نظام نافذ کرنے کا شوشہ چھوڑا ہے۔ایک طرف حکومتی حلقے کہہ رہے ہیں کہ ہمارا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں لیکن دوسری طرف میڈیا میں صدارتی نظام کی حمایت اور مخالفت میں بھی بحث وتمحیص جاری ہے۔

ویسے تو یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ وطن عزیز میں نفسا نفسی کا عالم ہے، حکومتی اور اپوزیشن حلقے دونوں مانتے ہیں کہ اقتصادی طور پر ملک کا دیوالیہ نکلا ہوا ہے اور کسی مسئلے پر اتفاق رائے نہیں ہے حتیٰ کہ حکومت خود مخمصے کا شکار ہے۔ کالا دھن سفید کرنے کی ایمنسٹی سکیم لانے کی بھرپور تیاری ہے اور اس پر اتفاق رائے پیداکرنے کے بجائے قومی اسمبلی کا بلایا ہوا اجلاس محض اس لیے موخرکر دیا گیا تا کہ اس سکیم کو اسمبلی میں بل کی صورت میں پیش کرنے کے بجائے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کر دیا جائے۔

ستم ظریفی ہے کہ خود وفاقی کابینہ میں اس معاملے پرشدید اختلاف رائے کی بنا پر اسے دومرتبہ موخر کرنا پڑا۔ عمران خان کے احتساب کے نعرے ’پکڑلو بھاگنے نہ پائے‘ کی گردان کے ماحول میں کابینہ میں موجود کھلاڑی سمجھتے ہیںکہ ایمنسٹی سکیم کے بجائے کریک ڈاؤن کیا جائے۔

مقام افسوس ہے کہ طے شدہ بنیادی امور پر بحث چھیڑ کر کنفیوژن میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کا اژدہا پھرسر اٹھا رہا ہے۔کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے خلاف دہشت گردی جس میں 21افراد جاں بحق ہوئے، ان کی لیڈر شپ کا دھرنا بمشکل ختم ہواتھاکہ مکران کوسٹل ہائی وے پر دہشت گردوں کے حملے میں 14افراد جاں بحق ہو گئے جن میں نیوی اہلکار بھی شامل ہیں۔

سیکرٹری داخلہ بلوچستان کے مطابق حملہ آور ایف سی یونیفارم میں ملبوس تھے اور انہوں نے شناختی کارڈ چیک کر کے مسافروں کو گاڑیوں سے نیچے اتارا اور شہید کر دیا۔ انسا ن کی اپنی پیدا کردہ مشکلات کافی نہیں تھیں کہ قدرتی آفات نے بھی پاکستان کو گھیرلیا۔ بے وقت بارشوں اور طوفان کے نتیجے میں بعض مقامات پر جانی نقصان ہونے کے علاوہ وسیع رقبے پر گندم کی تیار فصل بھی تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔

کیا یہ تمام مسائل صدارتی نظام کے نفاذ سے حل ہو جائیں گے؟۔ یہ معاملہ 1973ء کے آئین میں طے ہوگیا تھا کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام نافذ ہو گا۔ اس آئین سے پہلے اور اس کے نفاذ کے بعد اس آئین کو معطل کرنے اور طاق نسیان میں رکھنے کا بہت نقصان ہوا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے 1962ء کے قوم پر ٹھونسے ہوئے صدارتی آئین کو لائل پورکے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی جاتی تھی کہ آپ جس طرف بھی آ ئیں تان ایوب خان پر ہی آ کرٹوٹتی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوب خان اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو توڑ کر 1969ء میں اقتدار ایک اور آمر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر گئے جس نے ون یونٹ ختم کر کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت وفاقی پارلیمانی نظام کو دوبارہ نافذ کردیا لیکن ایوب خان نے جو بیج بویا تھا اس کے نتیجے میں ملک 1971ء میں دولخت ہو گیا۔

جب بچے کھچے پاکستان میںعنان اقتدار ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالی تو شروع میں وہ بھی صدر بنے، بعدازاں عبوری آئین اور1973ئکے آئین کے نفاذ کے بعد پارلیمانی نظام دوبارہ رائج ہو گیا اور بھٹو وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے بھی وفاقی پارلیمانی جمہوریت کی روح کو اہمیت نہ دی اور بلوچستان اور سرحد کی منتخب حکومتوں کو برطرف کر دیا،اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جاتا رہا حتیٰ کہ 1977ء کے عام انتخابات کے بعد متحدہ وپوزیشن پی این اے کی تحریک سے فائدہ اٹھا کر بالآخرجنرل ضیاء الحق نے جمہوریت دشمن قوتوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

جنرل ضیاء الحق کی11 سالہ طویل آمریت کی اندھیری رات کے دوران آئین معطل رہا اور جب اسے بحال کیا توا س میں ایسی ترامیم کی گئیں کہ یہ صدارتی رہانہ پارلیمانی۔جنرل ضیاء الحق اور دوسرے صدورآرٹیکل 58۔ٹو بی کے تحت بیک جنبش قلم منتخب وزرائے اعظم اور اسمبلیوںکو گھر بھیجتے رہے۔ خدا خدا کر کے میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں 58ٹو بی کا خاتمہ کیا لیکن وہ خود امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھ رہے تھے کہ ایک اور فوجی ڈکٹیٹرجنرل پرویز مشرف کی شکل میں قوم پرمسلط ہو گئے اور بالآخر انھیں بھی رسوا ہو کر جانا پڑا۔

2008ء میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت بالآخر بحال ہو گئی۔ برطرفی کے بجائے حکومتیں عام انتخابات کے ذریعے بدلی جانے لگیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت جو پارلیمانی تھی کو غیر رسمی طور پر صدر آصف زرداری جو ایک آئینی صدر تھے چلاتے رہے اور اپنے وزیراعظم کے ذریعے وسیع اختیارات استعمال کرتے رہے۔

گویا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ملک میں جب بھی صدارتی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو سسٹم کو نقصان ہی ہوا اور بالآخر پارلیمانی نظام کی طرف ہی لوٹنا پڑا۔ وفاقی صدارتی نظام جیسا کہ امریکہ میں ہے اگر بحث کی خاطر پاکستان میں نافذ ہو جائے تو اس میں بھی چیک اینڈ بیلنس اور براہ راست منتخب ہونے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور اراکین سینیٹ صدر پر قدغن لگا سکیں گے۔

شاید حکومتی ترجمان اسی لیے کہتے ہیںکہ یہ بحث بیکار ہے کیونکہ موجودہ وفاقی اور پارلیمانی ڈھانچے کو ختم کرنے، نیا نظام لانے اور آئین کا بنیادی ڈھانچہ بدلنے کے لیے نئی قانون سازی اسمبلی میں لانا ہو گی جس کے لیے موجودہ سسٹم کو ختم کرنا ضروری ہو جائے گا ایسا توکوئی طالع آزما ہی کر سکتا ہے جس کی موجودہ ماحول میںخواہش اور گنجائش نظر نہیں آتی۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).