اسلام میں فیملی پلاننگ ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے


دعوائے مضمون یہ ہے کہ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے فیملی پلاننگ کا ”کانسپٹ“ دیا ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے۔

مناسب ہے کہ پہلے دواصطلاحات بارے کلیئر ہو جائیں۔ فیملی یا خاندان کسے کہتے ہیں؟ فیملی مرد اورعورت کے اس جوڑے سے شروع ہوتی ہے جو میاں بیوی ہوں۔ یہ پہلا اور بنیادی یونٹ ہے۔

فیملی پلاننگ کسے کہتے ہیں؟ میاں بیوی جب اپنی فیملی کے مستقبل بارے کوئی سوچ وبچار کرتے ہیں تو اس کو ”فیملی پلاننگ“ کہتے ہیں۔ گھرداری اور روزی روٹی سے لے کر بچے پیدا کرنے اور پالنے تک کی ساری منصوبہ بندی اس میں شامل ہے مگر اہم ترین آیئٹم ”اولاد“ بارے ہوتا ہے۔

اولاد سے متعلق دوچیزوں کی پلاننگ کرنا ہوتی ہے۔ بچوں کی تعداد بارے اور بچوں کی پرورش بارے۔ آج کل چونکہ ”اولاد کی تعداد“ کا موضوع ہی چل رہا ہے لہذا زیرنظر مضمون میں بھی ”فیملی پلاننگ“ کا مطلب صرف ”اولاد کے لئے منصوبہ بندی“ لیا جائے۔

چنانچہ، ایک ”جوڑا“ جب یہ منصوبہ بنائے گا کہ ہم کتنے بچے پیدا کریں گے؟ ( یا بالکل بچے پیدا نہیں کریں گے ) تواس مخصوص خاندانی مں صوبہ بندی کو ہی ہم ”فیملی پلاننگ“ کا نام دیں گے۔

قارئین کرام! شریعت اسلام، اصلاً دو چیزوں کا نام ہے۔ قرآن اور حدیث ( یا ”کتاب و سنت“ ) ۔

ایک نکتہ ہمیشہ یاد رکھیں۔ ”دین“ کا کوئی حکم کسی منطقی علت (مادی وجہ) کے بغیرنہیں ہوسکتا اور ”مذہب“ کا کوئی حکم، منطق سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً، ”سود“ ایک معاشی مسئلہ ہے جو کہ دینی ایشو ہے تواسکی منطقی علت بتائی جا سکتی ہے۔ ”طواف کرنا“ ایک مذہبی مسئلہ ہے تواسکی منطقی علت آپ نہیں بتا سکتے۔

چونکہ آج کل آبادی کا مسئلہ، ایک سماجی، معاشی اور سیاسی ایشو بن چکا ہے پس یہ دین اسلام کا ایشو ہے ( نہ کہ مذہبی مسئلہ ) ۔ چنانچہ اس بارے کوئی ”منطقی علت“، دنیا کے سامنے پیش کرنا، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

بچے کتنے پیدا کریں؟ تھوڑے؟ زیادہ؟ یا بالکل نہیں؟ اس بارے قرآن میں کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ چنانچہ، کوئی جوڑا اگر بالکل بھی بچے نہیں پیدا کرنا چاہتا توبھی اس نے کسی قرآنی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ ( اس کی تفصیل آگے بیان ہوگی ) ۔

حدیث میں بچوں کی پلاننگ بارے ہدایات موجود ہیں اور یوں، اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس ایشو کوایڈریس کیا ہے۔ ( البتہ قرآنی امرنہ ہونے کی بنا پردرجہ بندی میں یہ ”سیکنڈری“ ایشو ہے ) ۔

دنیا میں سب سے پہلے فیملی پلاننگ کا ورژن پیغمبرِ اسلام نے پیش کیا تھا یہ نصیحت کرکے کہ ایسی عورت سے شادی کرو جو بچے زیادہ پیدا کرے۔ جب میاں بیوی یہ پلان بناتے ہیں کہ ہم نے بہت زیادہ بچے پیدا کرنے ہیں تو یہ تدبیر بھی ”خاندانی منصوبہ بندی“ ہی کہلائی جائے گی۔ (اس وقت دنیا کے بعض ممالک میں یہی فیملی پلاننگ چل رہی کیونکہ آبادی ضرورت سے کم ہوچکی ہے ) ۔

پیغبر اسلام نے ”زیادہ بچے“ پیدا کرنے کوکٰیوں کہا تھا؟ اس دینی حکم کی علت یعنی منطق بتائی جائے؟ کوئی دینی حکم بھی ”لایعنی“ نہیں ہوسکتا اور بغیرعلت کے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ( صرف مذہبی احکام ہی بغیر دلیل کے مانے جائیں گے ) ۔

گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے، ایک مسلمان کا بنیادی عقیدہ ذکر کردیتا ہوں۔

اگر کوئی جوڑا، زیادہ بچے پیدا کرنے کا پلان بناتا ہے تواسکے لئے چاہے جو ترکیب بھی آزما لے ( ”ٹسٹ ٹیوب“ سے لے کر ”سروگیٹ مدر“ وغیرہ تک ) مگراللہ کی مرضی کے بغیر کوئی روح دنیا میں نہیں آسکتی۔ یہ ہے عقیدہ۔

اگر کوئی جوڑا، کم بچے پیدا کرنے کا پلان بناتا ہے تو اس کے لئے چاہے جو ترکیب بھی آزما لے ( ”عزل/ کنڈوم“ سے لے کر ”رحم کے آپریشن“ وغیرہ تک ) مگر اللہ کی مرضی ہو تو کسی روح کو دنیا میں آنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ہے عقیدہ۔

جب بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ماں باپ چاہے جتنی بھی پلاننگ کرلیں مگر بچے اتنے ہی پیدا ہوں گے جو خدا چاہے گا تو پھر رسولِ خدا نے ایسا کیوں فرمایا تھا کہ زیادہ بچے پیدا کرو؟ خدا کی مرضی بنا بھلا زیادہ بچے کیسے پیدا کیے جاسکتے ہیں؟ کیا یہ خدا کے فیصلے میں مداخلت نہیں؟

یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ فیملی کے لئے پلاننگ کرنا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔ اسی رسول نے ہی ہمیں سکھایا کہ ”اے ابوذر! حسن تدبیر سے بڑھ کرکوئی عقل مندی نہیں“۔ شریعت ہی نے بتایا کہ اونٹ کا پاؤں باندھ دو اس کے بعد اس کی حفاظت بارے خدا پرتوکل کرو۔ انسان کو دیگر بہائم سے امتیازعقل کی بنا پرحاصل ہے۔ ( عقل اور توکل بارے ہم یہاں مزید گفتگو نہیں کریں گے ) ۔

ہم اپنے موضوع پررہتے ہیں۔

بچے زیادہ پیدا کرنے ہیں یا کم پیدا کرنے ہیں۔ یہ فیملی پلاننگ ہی ہے۔ رسول نے مگرزیادہ بچے پیدا کرنے کا کہا تھا۔ اس بارے ہماری گذارش یہ ہے کہ جس ”علت“ کی بنیاد پر رسول خدا نے ”زیادہ بچے“ پیدا کرنے کو کہا تھا، اسی ”علت“ کی بنیاد پرآج ”کم بچے“ پیدا کرنے مطلوب ہیں۔

دینی احکام کی ”علت“ کو سمجھنا، فقہہ حنفی کی سپشلٹی ہے۔ نماز اول وقت پرپڑھنے کا حکم ہے مگرفقہہ حنفی، ظاہری الفاظ نہیں دیکھتا بلکہ حکم کی روح اورعلت کی بنیاد پراس حکم کی تشریح کرتا ہے ( اور درست تشریح کرتا ہے ) ۔

اس سے پہلے کہ ہم حدیثِ نبی کی ”علت“ کی تشریح کریں، کلام الہی کی ایک ایسی آیت بارے گفتگو کرنا ضروری ہوگیا ہے جس کو مولوی حضرات نے فیملی پلاننگ سے نتھی کردیا ہے۔ وہ آیت ہے ”لا تقتلوا اولادکم خشیة املاق“۔ ( اسی قسم کی دو آیات ہیں ) ۔

مذکورہ آیات کا ”فیملی پلاننگ“ سے کوئی تعلق نہیں۔ پلاننگ تو کسی وقوعہ سے پہلے کی جاتی ہے نہ کہ بعد میں۔ ( جنگ ہونے سے پہلے ہی جنگ کی پلاننگ کی جاتی ہے۔ فتح یا شکست ہونے کے بعد تو فقط نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے ) ۔ جب کسی کی اولاد پیدا ہوگئی اوراسکے بعد وہ اس کو قتل کرتا ہے تو یہ کوئی فیملی پلاننگ نہیں کی جارہی بلکہ یہ ایک الگ گھناؤنا جرم کیا جارہا ہے۔ انسانوں کے قتل کو اگر آبادی کنٹرول کا عنوان دیا جائے توپھر ”ورلڈ وار“ کو ”ورلڈ فیملی پلاننگ ایونٹ“ کہنا چاہیے۔

فیملی پلاننگ، ایک انتظامی معاملہ ہے مگرمولوی صاحبان اس کو کفر یا حرام ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیت ”لا تقتلوا اولادکم خشیة املاق“ سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ اس آیت کا مروجہ فیملی پلاننگ سے کوئی ربط ہی نہیں۔ (دھکے سے ثابت کرنا الگ بات ہے ) ۔

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ فقر وفاقہ کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ( ایسی دو آیات ہیں۔ ایک میں لفظ ”خشیہ“ ہے اور ایک میں نہیں ہے۔ جس میں نہیں ہے، وہ اس فیملی کے لئے ہے جو ہیں ہی غریب۔ جس میں یہ لفظ ہے تووہ اس فیملی کے لئے ہے جن کو غریب ہوجانے کا مستقبل میں خوف ہے۔ دونوں صورتوں میں تسلی دی گئی ہے کہ اصل رازق، اللہ ہی ہے ) ۔

یہ ان قرآنی آیات میں سے ہے جن میں امر اور نصیحت یکجا ہوتے ہیں۔ ( لاتقربو الزنا۔ لاتقربو الخمر۔ یا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ لا تسألوا الناس شیئا) ۔ بہرحال، اسے حکم سمجھیں، نصیحت سمجھیں یا دونوں مگریہ آیت فیملی پلاننگ سے متعلق نہیں ہے۔

ہرزبان کا بامعنی جملہ تین چیزوں کے ذکر سے مکمل ہواکرتا ہے۔ فاعل، فعل اور مفعول۔ اس کے بعد ضمنی تفصیل ( جیسا صفاتی نام وغیرہ ) جملہ میں ڈالے جاتے ہیں جن کا ہونا بنیادی شرط نہیں ہے۔

قرآن کی ہر آیت ایک مکمل جملہ ہے۔ مذکورہ بالا آیات میں بھی فاعل، فعل اور مفعول موجود ہے۔ مگر یہ کہ ”فاعل“ یہاں محذوف ہے جبکہ فعل یعنی ”قتل“ اور سبجیکٹ یعنی ”اولاد“ واضح ہے۔ باقی بات ضمنی ہے یعنی ”وجہ قتل“۔ اور وہ ہے ”فاعل کا فقر وفاقہ“۔

یہاں ”فاعل“ کون ہے؟ ہرتفسیر میں یہی لکھا ہے کہ یہاں والدین کو خطاب ہے کیونکہ اولاد کا لفظ اس پہ دلالت کرتا ہے۔ ہم بھی یہی عام فہم بات تسلیم کرلیتے ہیں۔ (ورنہ مولویوں کی طرح سادہ بات کوجلیبی بنانا ہمیں بھی آتا ہے۔ قرآن میں جب قول نبی لوط نقل کیا گیا کہ ”میری بیٹیاں“ استعمال کرلو اس سے بعض مولوی صاحبان نے ”قوم کی بیٹیاں“ مراد لیا ہے نہ کہ حضرت لوط کی سگی بیٹیاں۔ یہاں بھی مخذوف فاعل کو لے کر آپ کے دماغ کا دہی بنایا جاسکتا ہے اوریوں ”اہل علم“ سے داد سمیٹی جا سکتی ہے مگر چھوڑیئے ) ۔

اس آیت میں ”فعل“ کیا ہے؟ وہ ہے ”قتل کرنا“۔ ( اس سے قتل عمد مراد ہے ) ۔ یاد رکھئے کہ قتل ایک زندہ انسان کا کیا جاتا ہے نہ کسی کرسی میز یا غیرجاندار چیز کا۔

اس آیت میں ”سبجیکٹ“ کیا ہے؟ وہ ہے ”اولاد“۔ یہ ”ولد“ سے نکلا لفظ ہے یعنی وہ مخلوق جو مادر رحم سے باہرنکل آئے۔ ( خدا نہ تو خود ”ولد“ ہوا ہے اورنہ کسی کو ”ولد“ کیا ہے ) ۔ ایک بچہ جب تک رحم مادر سے تولد ہوکر باہر نہیں آیا، وہ اولاد نہیں کہلائی جاسکتی۔ ( ”وجہ قتل“ کی بات بعد میں کریں گے ) ۔

بس آپ مذکورہ آیت کے دو بنیادی لفظ ( فعل اور مفعول ) یاد کرلیں جس پرہمارا سارا مقدمہ بنے گا۔

ایک ہے ”تقتلو“۔ دوسرا ہے ”اولاد“۔

آج تک دنیا میں فیملی پلاننگ کے جو بھی طریقے آزمائے گئے ہیں، ان کو تین مراحل پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

مروجہ فیملی پلاننگ کا پہلا مرحلہ :

سمجھدار مرد وعورت، جنسی ملاپ سے پہلے ہی احتیاطی تدابیر کرلیتے ہیں۔ اگر یہ تدابیر، میڈیکلی مسئلہ نہیں تو یہ گویا ”سپرمز“ کا زیاں کرنا ہوا۔ ( جیسا کہ جنسی عمل کے علاوہ بھی کروڑوں سپرمز احتلام وغیرہ کے ساتھ ضائع ہوجایا کرتے ہیں ) ۔ ہرایک سپرم کوانسانی شکل میں بارآور کرانا نہ تو شرعی تقاضا ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔

اب اس پہلے مرحلے کو قرآن کی مذکورہ آیت کے تناظر میں دیکھئے۔

کسی نے اپنا سپرم ضائع کر دیا۔ یہ مادہ یعنی سپرم، نہ تو انسان ہے کہ اس کا ضائع کرنا ”قتل“ کہلائے اور نہ ہی یہ ”اولاد“ ہے۔ پس اس مرحلے پر مذکورہ آیت کی دونوں بنیادی ٹرمز لاگو نہیں ہوتیں۔ نہ ”تقتلو“ اور نہ ہی ”اولادکم“۔ اس مرحلے پراس آیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4