بابر سے شہباز شریف تک اولاد کا دکھ اور خوشی


ظہیر الدین بابرنے ایک ایسی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی جو کابل و قندھار سے لے کرجنوبی ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ جو ڈھائی سو سال تک قائم رہی جس نے ہندوستان کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں عظیم سلطنت کا نام پایا۔ بابر نے اپنی چھوٹی عمر میں کئی جنگیں افغانستان میں لڑیں اور بھارت میں ابرہیم لودھی، رانا سانگا وغیرہ کی بھاری فوجوں سے مدمقابل ہوا۔ وہ صرف دس بارہ ہزار جنگوؤں کے ساتھ برصغیر میں داخل ہواتھا اور دہلی پر حکومت بنا لی لیکن صرف پونے چار سال کا دور حکومت اسے تاریخ میں امر کر گیا۔

اتنی بڑی سلطنت کا مالک ہونے کے باوجود ایک ایسا شفیق باپ تھا جس کی مثال شاید ہی تاریخ کے کسی صفحے پر مل پائے۔ اپنے بیٹے ہمایوں سے پیار کی مثال ایسے ہے کہ جب ہمایوں بیمار پڑا تو مملکت کے طول عرض سے تمام طبیب حاضر کر لئے گئے لیکن کوئی دوا ء کار گر ثابت نہ ہو سکی اوراس کے بعد روحانی علاج شروع کیے گئے۔ صدقات اور خیرات کا اہتمام اور ہزاروں جانور ذبح کرنے کے بعد جب بابر کو یہ مشورہ دیا گیا کہ اپنے تاج میں سجا ہیرا بھی خیرات کر دیں تو بابرنے جلالی لہجے میں ان سے پوچھا کہ کیا ایک پتھر کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت ہو سکتی ہے؟

پھر درخواست کی گئی کوئی اورپیاری چیز کا صدقہ۔ بابر نے کہا جان سے قیمتی کیا چیز ہو سکتی ہے اور یہ کہتے ہی قران پاک منگوایا اور اسے اپنے سر پر رکھا۔ اپنے بیمار بیٹے کے بستر کے گرد سات چکر کاٹتے ہوئے یہ دعا کی کہ اے اللہ اگر میرے بیٹے کی زندگی ہے تو اسے صحت یاب کر دے یا پھر میری زندگی میرے بیٹے کو لگا دے۔ بابر کی زوجہ اور ہمایوں کی والدہ ماہم کو معلوم ہی نہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے وہ بیک وقت دنیا کی خوش قسمت اور بدقسمت خاتون بننے جارہی تھی۔ اسی دوران بیٹے نے آنکھیں کھول لیں اوروہ صحت کے زینے پھلانگنے لگا۔ اور دوسری طرف دیکھتے دیکھتے بابر کی دعا قبول ہونے لگی مگر صحت گرنے لگی اور بابر اولاد کی محبت میں گھٹنے ٹیک کر موت کی آغوش میں چلا گیا۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کا دکھ بھی ایک عجیب داستان رکھتا ہے کیسے انہوں نے اپنے بیٹے کے دکھ کا کڑوا گھونٹ نگلا تاریخ نے اس کے بھی اوراق بھی بھرے۔ قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو بیٹے کا کتنا دکھ تھا اور اس دکھ میں بینائی تک چلی گئی تھی۔ اپنے محبوب بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے رنج وغم اور رونے کی وجہ سے ان کی بینائی گئی تھی۔

تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے کہ والدین اور اولاد کے رشتے سے بڑا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ دنیا کے وجود میں آنے سے اب تک اولاد کے دکھ سے بڑا کوئی دکھ نہیں اور اولاد کی خوشی سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان بتاتے ہیں جب ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو انہیں بہت خوشی ہوئی بقول ان کے اگر انہیں اولاد کی خوشی کا پہلے علم ہوتا وہ بہت پہلے شادی کرچکے ہوتے۔

آپ کی سماجی حیثیت چاہے کتنی ہی بلند ہو، دنیا کے لیے آپ کا مزاج چاہے پہاڑ جیسا سخت ہو مگر اولاد کے لیے آپ موم سے بڑھ کر نرم ہوتے ہیں۔ میاں نواز شریف اڈیالہ جیل میں قید ہوئے تو ان کی بیٹی مریم نواز بھی یہیں قید تھیں۔ جب کئی دن بعد باپ بیٹی کی ملاقات ہوئی تو ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے۔ یہ وہی لمحہ تھا جب میاں نواز شریف اپنے ”اصولی موقف“ پر نظر ثانی پر مجبور ہوگئے تھے۔ خواجہ سعد رفیق کی احتساب عدالت میں ابتدائی پیشیوں میں ان کا بیٹا بھی عدالت آتا تھا، ایک دن عدالت میں رش کی وجہ سے دھکم پیل ہوئی توکچھ دھکے ان کے بیٹے کو بھی لگے خواجہ صاحب یہ ماحول دیکھ کر فکر مند ہوگئے اور اپنے بیٹے کو پیچھے جا کر بیٹھنے کا کہا۔

اسی طرح ایک سماعت میں جب خواجہ سلمان رفیق کے بیٹے کا نام نیب کے وکیل کی جانب سے بار بار دہرایا گیا تو خواجہ سلمان عدالت میں موجود اپنے بیٹے کو دیکھ کر پریشان ہوگئے تھے۔ تحریک انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان کے بیٹوں کو عدالت میں دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا توعبدالعلیم خان نے ان کا حفاظتی دستہ بڑھادیا اب گارڈز کی وجہ سے صحافیوں اور کارکنوں کو دھکے ملتے ہیں۔ نیب نے شہباز شریف کو بلایا اور گرفتار کر لیا وہ پریشان ہوئے مگر اصل پریشانی اور بے چینی تب ہوئی جب ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے نیب کی ٹیم ان کے گھر پہنچی۔ دو دن نیب کی ٹیم ان کے گھر آئی اس دوران شہباز شریف بے چین تھے، پل پل کی خبر لیتے تھے اور لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ جب تک ہائی کورٹ سے ضمانت کی خبر نہیں آئی تب تک ان کی پریشانی کم نہیں ہوئی۔ اللہ کی کتاب میں مال اور اولاد کو آزمائش کہا گیا۔ بلاشبہ اولاد کسی آزمائش سے کم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).