نئے چیف جسٹس صاحب کے نا م رحم کی اپیل


محترم، عالی مقام، جناب چیف جسٹس آف پاکستان،

بعد از سلام عرض یہ ہے کہ آج پہلی بار آپ سے مخاطب ہو نے کی جسارت کر رہی ہوں اس یقین کے ساتھ کہ آپ اس ناچیز کو چھوٹا سنمجھ کہ معاف کر دیں گے۔

سرکار عرض یہ ہے کہ ہم نے بہت سے مراسلے سابقہ چیف جسٹس صاحب کو تحریر کیے، لیکن ڈیم کی ٹینشن میں بے چارے وہ خطوط پڑھنے سے قاصر رہے۔ اس لیے ناچیز اب آپ سے ہی مخاطب ہو رہی ہے، جانتے ہوئے بھی کہ آپ سابقہ چیف جسٹس صاحب اور میری طرح سوشل میڈیا سلیبرٹی بنبے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

یوں تو آپ سب کچھ ہی جانتے ہیں، لیکن ہم پھر بھی آپ کی توجہ حال ہی پیش آنے والی ایک خبر کی طرف کروانا چاہتے ہیں۔ چھ اور سات اپریل کی درمیانی شب اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے ڈی اے محمد ناصر سول ہسپتال کراچی میں انتقال کر گئے۔ یہ خیر شاید اتنی اہم نہیں جسے کوئی بڑی حیثیت والا توجہ دے۔

بی کلاس کے اس قیدی میں ایسا کیا ہے جس پہ آپ کی توجہ دلائی جائے؟
سرکار عرض یہ ہے کہ کے یہ قدرتی موت نہیں یہ دراصل ایک ”قتل“ ہے۔

یہ قتل پہلا بھی نہیں ایسے تو ہزاروں افراد قتل ہو چکے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کیونکہ قانونی مشنری بنی ہی اس انداز میں ہے۔

نیشنل اکاونٹیبلٹی بیورو نے ناصر صاحب کو سن دو ہزار پندرہ میں گرفتار کیا اوران پہ مختلف مقدمات بنے لیکن وہ کبھی چلے نہیں کیونکہ ان کا مقصد کیس چلانا تھا ہی نہیں، جب کہ ان کیسز میں کبھی بھی سزا موت یا تاحیات قید ہو بھی نہیں سکتی۔ نیب کے تمام کیس بارگین کرنے کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ناصر صاحب کے پاس بارگین کرنے کے لیے کچھ تھا نہیں۔ ہوتا تو مک مکا ہو جاتا اور پانچ سال پہلے ہی وہ آزاد ہو جاتے۔ اب ایک غریب شخص ان کے کس کام کا؟ پھر بھی اگر مقدس جج صاحب محض تاریخیں لگانے کے علاؤہ بھی کچھ کرتے تو یا تو جرم ثابت ہوتا یا بے گناہی، لیکن اتنی توجہ دی ہی کیوں جائے؟

پاکستان میں واقع تمام جیلوں میں تین ہزار کی گنجائش میں سات ہزار سے زائد افراد موجود ہیں۔ جس میں پچاس فیصد اندر ٹرائل قیدیوں کی ہے۔ جیل میں موجود سرکاری ہسپتال کی حالت اس قدر ابتری کا شکار ہے لوگ وہاں جانا ہی نہیں چاہتے، ناصر صاحب بھی کافی عرصے سے علیل تھے جیل میں صحت کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں۔ جب ان کی حالت حد سے زیادہ بگڑ گئی تو جیل میں موجود نام نہاد ہسپتال میں دس دن رکھا گیا جہاں وہ روز بروز کمزور ہوتے گئے آخر وقت میں جب ان کے پیٹ میں پانی بھرنے لگا تو انہیں سول ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ سول ہسپتال کی حالت سے بھی ہم سب ہی واقفیت رکھتے ہیں۔ یہاں وہ نو دن زندگی اور موت کی جنگ لڑتے رہے اور آخر کار جسم کے قید خانے سے ان کی روح آزاد ہو گئی۔ کھیل ختم فائنل بند۔

سرکار پچھلے ڈیڑھ ماہ سے وکلاء کی ہڑتال چل رہی ہے۔ پہلے پہل تو پورا کورٹ ہی لپیٹ میں آیا پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اب ہر جمعرات کو وکلاء ہڑتال کریں گے، نہ جمعرات کو کوئی کسٹڈی آ پاتی ہے نہ ہی کچھ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی تمام معصوم جج دو ہفتے بعد کے جمرات کی تاریخ لگا دیتے ہیں یہ سوچے بنا ہی کہ جو لوگ جرم بے گناہی کاٹ رہے ہیں یہ دن ان کا اپنے اہل وعیال سے ملاقات کا ہے، اس ایک دن کا انتظار وہ پورے دو ہفتے کرتے ہیں اور دو ہفتے بعد شدید مایوس جب جیل میں ملاقات کے لیے جاتے ہیں، تو دو گھنٹے کی بھاگ دوڑ کے بعد جب وہ اپنے عزیز کو دیکھتے ہیں تو ملاقات کے حصے میں اس شدت کی گرمی میں پنکھے ہیں نہ ہی انٹرکام کام کرتے ہیں۔

سرکار اس پوری روداد سنانے کا فقط اتنا سا مقصد تھا کہ رحم جہاں پناہ رحم، خدا نے آپ کو وقتی طاقت سے نوازا ہے پورے عدلیہ کے سسٹم کو تبدیل کرنا تو شاید ممکن نہ ہو۔ کچھ نہیں بس جیل ریفارم ہی کر جائیں بڑی مہربانی ہوگی۔

فقط،
آپ کی توجہ کی طالب ایک قیدی کی بہن۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).