ڈونٹ انڈر ایسٹیمیٹ دی پاور آف عمران خان


کپتان نے فیلڈنگ کیا بدلی بعض لوگوں کو تنقید کا بہانہ مل گیا۔ شاید وہ نادان لوگ کپتان کو جانتے نہیں ہیں انہیں معلوم نہیں کہ یہ بھی ایک حکمت عملی ہوتی ہے مخالف کو آؤٹ کرنے کی۔

سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی جب پاکستان کی ٹیم اپنے ابتدائی میچ ہار گئی تو لوگ باگ مایوس ہو گئے تھے اور علانیہ کہنے لگے تھے کہ یہ ٹیم تو سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچے گی لیکن کپتان اسی ٹیم کے ساتھ نہ صرف فائنل تک پہنچے بلکہ ورلڈ کپ بھی جیت کر دکھا دیا۔ ہارنے کے بعد جب جیت ملتی ہے تو اس کی خوشی ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اسی لئے تو ہم اب تک اس خوشی کو سنبھالنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح ہار کر جیتنے والے کو بازیگر کہتے ہیں اور کپتان ایسے بازیگر ہیں جو کسی وقت بھی قوم کو حیران کر سکتے ہیں۔

وزیرِ خزانہ کو ٹیم سے باہر کرنے پر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ناکامی ہے اندر کی بات تک کوئی پہنچا ہی نہیں۔ یہ سچ ہے کہ سات برس تک کپتان اسد عمر کی تعریفیں کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پوری قوم بڑی شدت سے یہ چاہنے لگی تھی کہ کسی طرح اسد عمر ملک کے وزیر خزانہ بن جائیں۔ اسد عمر خود بھی کئی بار حساب لگا کر بتاتے تھے کہ پیٹرول کی قیمت 45 روپے سے کسی طور زیادہ نہیں ہونی چاہیے لیکن پھر جب وہ وزیر خزانہ بنے تو پیٹرول کی قیمت بڑھاتے بڑھاتے تقریباً سو روپے تک لے گئے۔ ڈالر جو سو کے آس پاس تھا اسے 140 تک لے گئے۔ یہ بھی سنا ہے کہ انہوں نے معیشت کو پچاس ارب روپے کا ٹیکہ لگا دیا۔

عوام میں چونکہ عقل کی کمی ہوتی ہے اس لئے وہ اسے اسد عمر اور حکومت کی ناکامی سمجھنے لگے کیونکہ ان کے خیال میں یہ مہنگائی کا سیلاب آنے کی بنیادی وجہ ہے۔ جب کہ بنظر غائر دیکھا جائے تو یہی اسد عمر کی ذہانت تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کفایت شعاری اور بچت کے فائدوں سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کر بیٹھتے ہیں اور پھر مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔

عوام کو بچت کی عادت ڈالنے کے لئے حکومت نے پہلے پرائم منسٹر ہاؤس کی بھینسیں بیچ کرعوم کو بچت کا سبق دیا پھر گاڑیاں بیچیں، وزیرِاعظم نے خود گاڑیوں کی بجائے ہیلی کاپٹر میں سفر شروع کیا کیونکہ فواد چوہدری کی تحقیق کے مطابق وہ سستا پڑتا تھا لیکن عوام ٹس سے مس نہ ہوئے اور بچت کرنے کی بجائے فضول خرچیاں کرتے رہے تب حکومت نے جان بوجھ کر ایسے اقدامات کیے تا کہ چیزیں اتنی مہنگی ہو جائیں کہ عوام انہیں خرید ہی نہ سکیں اس طرح خود بخود ان کی بچت ہو گی۔

رہی بات اسد عمر کو ہٹانے کی تو وہ خود کہہ چکے ہیں کہ وہ تو زندگی انجوائے کر رہے تھے ایسے میں اچانک ایک دن کپتان نے کہا کہ اسد عمر مجھے یعنی ملک کو تمہاری ضرورت ہے چناں چہ کپتان کے حکم پر ایک تابع فرمان کھلاڑی کی طرح انہوں نے وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھال لیا پھر مسلسل آٹھ مہینے تک چودہ چودہ گھنٹے کام کرتے رہے۔ انہوں نے محض آٹھ ماہ میں چار سال کا کام کر دیا۔ دوسری پارٹیوں کے وزیر خزانہ سستی سے کام لیتے تھے اور چار سال میں صرف چار بجٹ ہی پیش کر پاتے تھے مگر اسد عمر نے آٹھ ماہ میں چار بجٹ پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اس فیلڈ کے ماہر ہیں۔ اب اتنا کام کرنے کے بعد ریسٹ تو بنتا ہے آخر وہ بھی انسان ہیں ان کے بھی جذبات ہیں۔

آٹھ نو وزرا سے ان کی وزارتیں لے لی گئی ہیں۔ اسد عمر تو بے تحاشا کام کرنے کے بعد اب آرام کے موڈ میں ہیں لیکن باقی وزرا کی وزارتیں تبدیل کر دی گئی ہیں۔ اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ان وزرا کو ہر قسم کی وزارت کا تجربہ ہو سکے، کل کلاں کسی اور پارٹی کی حکومت آ گئی تو اس میں بھی ایڈجسٹ ہو سکیں۔ کیوں کہ ان وزرا میں سے اکثر مشرف اور زرداری حکومت میں بھی وزیر رہ چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سابق وزرا کوآصف زرداری کے سینے پر مونگ دلنے لے لئے زیادہ اہمیت دی گئی ہے تا کہ آصف زرداری کو پیغام ملے کہ ان کے جیالے کپتان کے کھلاڑی بن کر ان کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور آصف زرداری کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ جب کہ بلاول بھٹو کے طنز کے بر عکس کپتان ہرگزکٹھ پتلی نہیں ہیں وہ کسی کے اشاروں پر نہیں ناچتے۔ ناچ وغیرہ سے انہیں بچپن ہی سے نفرت رہی ہے تاہم ان کی حرکات و سکنات پر کئی قوتیں ایسے انگلیاں ہلاتی ہیں کہ عوام کو غلط فہمی ہو جاتی ہے۔

خیر یہ عوام کی کم فہمی ہے عوام تو یہ بھی سمجھتے تھے کہ جس طرح کپتان نے نواز شریف کو کلین بولڈ کر کے پویلین کی یعنی اڈیالہ کی راہ دکھائی تھی اسی طرح جلد ہی آصف زرداری بھی ایل بی ڈبلیو ہو کر اڈیالہ جائیں گے لیکن ظاہر ہے وہ غلط سمجھتے تھے اگر وہ کپتان کی حکمت عملی کو سمجھنے کے قابل ہوتے تو خود کپتان کی جگہ پر نہ ہوتے۔ کپتان کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ مثلاً عثمان بزدارجسے وہ وسیم اکرم پلس کا خطاب دے چکے ہیں انہیں ہٹا کر چیچہ وطنی یا بورے والا سے کسی اور کو وزیراعلیٰ بھی بنا سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان علاقوں میں گھر گھر بجلی لگی ہے۔

اسی طرح وہ آصف زرداری کو صدر بنا سکتے ہیں۔ جب اتنے وزرا پیپلز پارٹی کے ہوں گے اور صدرآصف زرداری تو بلاول بھٹو تو تنہا ہی رہ جائیں گے اور پی ٹی آئی کے لئے مستقبل میں خطرہ نہیں بن سکیں گے۔

محض آٹھ مہینوں میں اتنی تبدیلیوں کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی تھی لہٰذا مسلسل تبدیلی تو از بس ضروری ہے خواہ وہ ماضی میں دیے گئے اپنے بیانات تبدیل کرنے کی بات ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم کپتان اب بھی پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کی بات پر قائم ہیں اور اس حوالے سے یو ٹرن نہیں لیا۔ حیرت ہے عوام پھر بھی زندہ ہیں غالب ہوتے تو اعتبار کر کے خوشی سے مر جاتے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کی بوریت دور کرنے لئے وہ کوئی نہ کوئی تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔

دراصل حکومتیں تین چیزوں سے چلتی ہیں انٹرٹینمینٹ، انٹرٹینمنٹ اور انٹرٹینمنٹ۔ کپتان اس صلاحیت سے مالا مال ہیں جبکہ آصف زرداری اور نواز شریف اس ہنر سے یکسر محروم ہیں اسی لئے حکومت کی گراؤنڈ سے باہر بیٹھے ہیں۔ اسی لیے ہمیں تو کامل یقین ہے کہ کپتان اپنی پاور استعمال کر کے نہ صرف کابینہ بلکہ ملک کے نظام میں بھی جب چاہیں ردو بدل کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی کو کسی کلینک میں بٹھا کر خود صدارت کی کرسی پر بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ سو تھوڑا کہے کو زیادہ جانیں اینڈ ڈونٹ انڈر ایسٹیمیٹ دی پاور آف عمران خان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).