جدید حکایات سعدی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نیشا پور میں دو متوسط لیکن مغرور ہمسائے ہنسی خوشی رہنے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے کہ اچانک ان کے محافظین کے درمیان کسی بات پر لڑائی بھڑک اٹھتی۔ عموماً مہینے کے آخری دنوں میں ایسا ہوتا۔ ایسا شدید ہیجان پیدا ہوتا کہ بات الزام تراشی سے شروع ہوتی ہوئی پکڑ دھکڑ تک پہنچتی اور آخر میں ایٹمی بندوق چلانے تک چلی جاتی۔ باہمی لڑائی کا جوش و خروش عروج تک پہنچ جاتا۔ طبل جنگ بجنے سے عین پہلے ان گھروں کے بچے صلح کے بدلے ہر طرح کی جانی و مالی قربانی دینے کی یقین دہانی کروا دیتے۔ خون خرابے سے بچنے کے لئے مالی قربانی پر اکتفا کر کے لڑائی موخر کرنا پڑ جاتی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ الیکشن کے قریب عامۃ الناس نامی حلوائی کے بیٹے کو چوری کے شبے میں مقامی پولیس اٹھا لے گئی۔ بے چارہ بے قصور تھا لیکن یہ ثابت کرنے کے لئے بھی کچھ تقاضے کیے گئے۔ عامۃ الناس کو مجبوراً چوہدری سے سفارش ڈلوا کے بیٹا چھڑوانا پڑا اور بدلے میں چوہدری کو اپنے ووٹ کا وعدہ دے آیا۔ سارا گاؤں اسے بے ضمیر اور بریانی خور کا طعنہ دینے لگ گیا۔ بے چارہ شرمندگی کی وجہ سے دکان بند کر کے گھر بیٹھ گیا۔ چند دن بعد گاؤں والے اس کے گھر کے باہر جمع ہوئے اور صدا لگائی، ”اوئے عامۃ الناس اٹھ دکان کھول۔ اپنے ملک فضل ربی صاحب کو ع پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملا تو غ پارٹی سے ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ منہ میٹھا کروانا ہے پورے گاؤں والوں کا۔

صدیوں پہلے ایک ترقی یافتہ تہذیب گزری ہے جس کے اکابرین کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ فی بندہ بیک وقت سائنس، فلسفہ، سماجیات، تاریخ، موسیقی اور روحانیت میں یدطولی رکھتے تھے۔ اس تہذیب کے نونہالوں کو سلیبس میں یہی باور کرایا جاتا کہ دنیا بھر نے انہی سے سیکھ کر ترقی کی تو تمہیں کیا موت پڑی ہے۔ چنانچہ ان نونہالان نے اکابرین کے نقش قدم پر چل نکلنے کا عزم کیا۔ پھر دنیا نے دیکھا ان کے قاضی منصفی کے ساتھ سیاست بھی کرنے لگے۔ سیاستدان قانون سازی کے ساتھ ساتھ صنعتکاری بھی کرنے لگے، صنعتکار صحافت میں طبع آزمائی کرنے لگے اور صحافیوں نے منصفی کا بیڑا اٹھا لیا۔ جبکہ بیوروکریٹس نے جی حضوری کے ساتھ ساتھ دانشوری اختیار کر لی اور افواج نے سفارتکاری سنبھال لی۔ اب وہ تہذیب اپنے اجداد کی جانب تیزی سے لَوٹ رہی ہے۔

تیس برس قبل ایک بستی سے گزر ہوا جہاں ایک واعظ مجمع سے وعظ کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں موت کا منظر کا کتابچہ اور زبان پر ہولناک اور دردناک قسم کے قصے تھے۔ اس کے پراثر وعظ کے زیراثر مجمع عذاب کے ڈر سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ کل جب دوبارہ اس بستی سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ واعظ مجمع سے خطاب کرتے ہوئے راہ راست پر آنے کی تلقین کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ستر حوروں کی بناوٹ کا کتابچہ تھا اور زبان پہ لذت آمیز الفاظ۔ مجمع خوشگوار خیالات میں مدہوش تھا۔

ایک بزرگ کی خدمت میں ایک سیاسی دانشور حاضر ہوا۔ کافی دیر گم سم بیٹھا رہا۔ آخر رہا نہ گیا اور پہلو بدلتے ہوئے عرض گزار ہوا کہ گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی پیشنگوئیاں اور تجزیے غلط ثابت ہورہے ہیں، رزق میں تنگی کی شکایت ہو رہی ہے۔ بزرگ یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا، پہلا سال گزشتہ ادوار کی برائی کا ہوتا ہے، دوسرا سال قربانی مانگنے کا ہوتا ہے، تیسرا سال صبر کی تلقین کا اور چوتھا سال سازشی عناصر بے نقاب کرنے کا ہوتا ہے جبکہ پانچواں سال ایک موقع اور دینے کی التجا میں گزرتا ہے۔ کسی بھی سیاسی تبدیلی کو پرکھنے سے پہلے یہ وظیفہ پڑھنا، افاقہ ہوگا۔ وہ دانشور چلا گیا اور کچھ عرصہ بعد خوشی خوشی واپس آیا اور بزرگ کی خدمت میں شکرانہ بجا لایا۔

چند صدیاں قبل غور اور غزنی سے دین کا درد لئے کچھ فاتحین بلاد پاک نامی خطے میں اسلام پھیلانے کے لئے حملہ آور ہوا کرتے تھے۔ وقت بدلا اور پھر بلاد پاک کے دردمند مجاہدین غور اور غزنی کے احسانات کا بدلہ چکانے وہاں جانے لگے۔ مزید وقت بدلا دونوں خطے ایک دوسرے کے عقائد درست کرنے کے لئے حملہ آور ہونے لگے۔ آخر کار دونوں کے درمیان ایک تیسرا ملک آگیا جو صلیبی تھا۔ اس نے دونوں کو خلیج کنارے بٹھا کر سمجھایا کہ اسلام کا اصل فلسفہ تمہارے لئے تمہارا دین، ہمارے لئے ہمارا دین ہے۔ اور پھر دونوں راضی ہوتے نظر آنے لگے۔

ایک دن چوگان کھیلنے والے کچھ جوان بادشاہ وقت کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اگر بادشاہ سلامت اپنی عوامی مقبولیت بڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں ایک اچھا کپتان میسر کردیں۔ وہاں موجود ایک قنوطی وزیر نے کہا اکیلا کپتان کیا کرے گا جب کہ تم سب نا اہل ہو۔ جوانوں نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا کہ کپتان اچھا ہونا چاہیے، باقی معاملات اپنے آپ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ بادشاہ نے جوانوں کے سچے جذبات سے متاثر ہو کر ایک بہترین کپتان دے دیا۔

کچھ عرصے بعد کپتان بادشاہ کے دربار میں آداب بجا لایا اور روہانسے انداز میں کہا عالیجاہ! اچھے جوانوں کے بغیر کپتان کچھ نہیں کر سکتا براہ کرم جوان بدلنے کا اختیار دے دیجئے۔ بادشاہ نے معنی خیز نگاہوں سے وزیر کو دیکھا اور کپتان کو اپنے جوان بدلنے کی اجازت دے دی۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ کپتان اور اس کے جوان لڑتے جھگڑتے ایک ساتھ ہی دربار میں آدھمکے۔ بادشاہ کی خدمت میں عرضداشت پیش کی کہ اس ملک کے لوگوں کو کھیل کی کوئی قدر نہیں۔ یہ صرف ہار یا جیت کو دیکھ رہے ہیں، ہماری نیت اور بھاگ دوڑ کو خاطر میں نہیں لارہے۔ ایسی جاہل قوم کے سامنے کھیل جاری رکھنا عبث ہے، آپ چوگان ہی ختم کردیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).